عدلیہ سرکاری اذیت کے خلاف شہری آزادی کی حفاظت کریں !

دیش کی عدالتوں نے شہری کی آزادی پر دو اہم فیصلے سنائے ہیں ارنب گوسوامی اور کنگنا رنوت سے متعلق فیصلوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ عدلیہ سرکار کے ذریعے چنندہ اذیت رسانی کےخلاف شہری آزادی کی حفاظت کریں کیوں کہ اس کے نتیجے بہت سنگین ہیں جسٹس ڈی وائی چندر چور اور اندرا بینرجی کی ڈویزن بنچ خود کشی کے لئے اکسانے کے معاملے میں رپبلک ٹی وی کے ایڈیٹر اینڈچیف ارنب گوسوامی کی انترم ضمانت بڑھانے کے معاملے میں سماعت کررہے تھے ۔سپریم کورٹ نے جمعہ کو کہا دیش کی سبھی عدالتیں چاہے وہ سپریم کورٹ ہو یا ہائی کورٹ یا ضلع عدالت ہو سبھی کی ذمہ داری یہ یقینی بنانا ہے کہ مجرمانہ قانون کو شہری اذیت کا ہتھیار نا بنایا جائے ۔عدالت نے کہا عدلیہ سرکار کے ذریعے چنندہ اذیت رسانی کے خلاف شہری آزادی کی حفاظت کریں چونکہ اس کے نتیجے بہت سنگین ہو سکتے ہیں ۔عدالت نے کہا کسی کو ایک دن بھی آزادی سے محروم رکھنا بہت زیادہ ہے خوکشی کے لئے اکسانے کے معاملے میں ارنب کو دی گئی ضمانت کی مفصل وجہ پیش کی گئیجس کے مطابق مہاراشٹر پولیس کے ذریعے درج ایف آئی آر کا پہلی نظر میں تجزیہ ان کے خلاف الزام قائم نہیں کرتا ۔عدالت نے اپنے 33صفحات پر مبنی فیصلے میں صاف کیا ہے کہ ارنب کو ملی انتم ضمانت ممبئی ہائی کوڑٹ میں ان کی زیرا لتو ا عرضی کے نپٹارے تک جاری رہے گی اتنا ہی نہیں اگر ہائی کورٹ کا فیصلہ ارنب کے خلاف آتا ہے تو بھی اس فیصلے دن سے ہفتہ بھر کی میعاد تک انہیں انتم ضمانت میں رہنا ہوگا ۔وہیں ممبئی ہائی کورٹ نے جمعہ کو ہی کہا کہ وہ ممبئی میونسپل کارپوریشن (بی ایم سی )کے ذریعے اداکارہ کنگنا رنوت کے بنگلہ کے حصہ کو گرانے کی کاروائی ایک طرح سے اداکارہ کو نقصان پہوچانے کے لئے کی گئی تھی ۔عدالت میں گرانے کے حکم کو ناجائز قرار دیا اور اسے منسوخ کر دیا عدالت نے یہ بھی کہا کہ کوئی عدالت کسی بھی شہری کے خلاف انتظامیہ کو دوہری طاقت استعمال کرنے کی منظوری نہیں دیتا ۔عدالت ایس کے کا ٹھوالا اور جسٹس آر آئی منگلہ کی بنچ نے کہا سٹی کارپوریشن کے ذریعے کی گئی کاروائی ناجائز تھی اور اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے ۔بنچ نے کنگنا رنوت کے نو ستمبر کو باندرا میں واقع پالی ہل بنگلہ مین بی ایم سی کے ذریعے کی گئی کاروائی کے حکم کو چیلنج دینے والی عرضی پر سماعت کررہی تھی حالانکہ بنچ نے صاف کیا کہ وہ کسی بھی شہری کے ذریعے کسی بھی ناجائز تعمیل کو نظر انداز کرنے کی حمایتی نہیں ہے اور نا ہی اس نے رنوت کو صحیح ٹھہرایا جس کی وجہ سے یہ پورا واقعہ ہوا ۔ہائی کورٹ نے کہا کہ عدالت ناجائز کاموں یا سرکار کے خلاف یا فلم صنعت کے خلاف دئیے کسی بھی غیر ذمہ دارانہ بیان کی تائید نہیں کرتی اپنے حکم میں کنگنا رنوت کو پبلک طور سے اپنے اظہار رائے سے تحمل برتنے کا حکم بھی دیا وہیں کنگنا رنوت نے کہا جب ایک شخص سرکار کے خلاف کھڑا ہوتا ہے اور کامیاب ہوتا ہے تو یہ اس شخص کی جیت نہیںہے بلکہ پوری جمہوریت کی جیت ہے ۔ (انل نریندر )

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟