کورونا وائرس بھی پریشان ،جنہیں نہیں ہوا وہ بھی تناو ¿ میں!

کووڈ وائرس اور بغیر کووڈ انفیکشن دونوں طرح کے لوگوں میں ذہنی تناو¿ بڑھتا جارہا ہے ۔جن کو کووڈ ہو گیا ہے وہ بھی فکر مند ہیں اور جنہیں نہیں ہوا وہ بھی اب تک تعجب کی بات یہ ہے کہ انفیکشن ہونے کے بعدتناو¿ میں جارہے ہیں تو دوسرے بغیر انفیکشن کے صرف یہ سوچ کر اس بیماری میں سن کر سوچ کر پریشان ہو جاتے ہیں ان کی زندگی ذہنی کشیدگی میں مبتلا ہو جاتی ہے ایسے کئی معاملے سائکیٹرک اور سائیکولوجسٹ کے سامنے تیزی سے آرہے ہیں کورونا سے متاثر لوگوں میں ذہنی نوعیت پوری طرح سے متاثر ہو رہی ہے کورونا پازیٹو رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ میریض ڈپریشن میں جارہے ہیں ایمس کے ڈاکٹروں کے ذریعے کی گئی ایک اسٹڈی میں کورونا سے متاثر 21فیصدی مریض ڈپریشن میں پائے گئے وہیں 22.8فیصدی مریض کشیدگی میں ہیں ایمس کے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ذہنی دباو¿ اور ڈپریشن میں گئے مریضوں کا علاج چیلنج بنا دیتا ہے ۔ایمس کے ڈاکٹروں نے 461مریضوں پر یہ اسٹڈی کی ہے جنہیں کورونا ہونے پر علاج کے لئے اسپتال میں بھرتی کیاگیا تھا ۔ایمس کے ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ گھر میں آئی سیولیشن میں رہ رہے مریضوں کو ذہنی پریشانی ہونے پرعلاج زیادہ مشکل ہوتاہے کیوں کہ سائیکلولجسٹ ہر جگہ نہیں ملتے اس لئے ذہنی دباو¿ اور ڈپریشن سے بچنے کے لئے ہوم آئی سیولیشن میںرہنے والے مریضوں کی سانس سے جڑی ورزش کرنی چاہیے اس کشیدگی سے تناو¿ دور ہوتا ہے سائیکلوجسٹ ڈاکٹر راگنی سنگھ نے بتایا کہ سنیچر کو ورلڈ ہیلتھ ڈے تھا ہم سبھی جانتے ہیں کووڈ وبا نے کس طرح کے لوگوں کی زندگی تباہ کر دی ہے ایک طرف بیماری کا ڈر تو دوسری طرف زندگی کو پھر سے پٹری پر لانے کی چنوتی ایسے میںپورے دیش میں ڈیڑ ھ لاکھ سے دو لاکھ مریضوں میں ایک سائیکلوجسٹ یا سائیکیٹرک ہیں ایسے میں پریشانی کی بات یہ ہے کہ ان لوگوں کا علاج ممکن نہیں ہے بڑے شہروں میں تو ایسی پریشانی کا علاج مل رہا ہے ۔وہیں ڈاکٹرثمیر پاریکھ کا کہنا ہے کہ کووڈ وبا ایسی بیماری ہے جس کو لیکر خوف ہونافطری ہے یہاں تال میل بٹھانا ضروری ہے ۔بغیر وجہ ایسی فکر نہیں کرنی چاہیے ہمارا مشورہ تو یہ ہے مست رہو جب کورونا ہوگا تب دیکھا جائیگا۔ویسے بھی اب کورونا متاثرین کے ٹھیک ہونے کی تعداد بڑھ رہی ہے ہوگا بھی تو ٹھیک ہو جائیگا۔انگریزی میںکہاوت ہے” کروس دی برجی ایس بھین ٹویو کم ٹو اٹ“۔ (انل نریندر )

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟