آپ کی بیٹی ہوتی تو کیایوںہی انتم سنسکار کردیتے!

ہاتھرس کے چندپا علاقے کے ایک گاو¿ں میں ایک بیٹی کے ساتھ ہوئی درندگی اور اس کے قتل کے معاملے میں الہٰ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو¿بینچ نے کہا کہ اے ڈی جے پرشانت کمار بد فعلی قانون میں ترمیم کے بارے میں جانتے ہیں پھر بھی انہوں نے سیمن ناملنے والی فورنسک رپورٹ کی بنیاد پر بد فعلی نا ہونے کا بیان دیا ہم نے ان سے یہ سوال اس لئے کیا تھا کیونکہ وہ قانون و نظم اور ڈی ایم نے جانچ سے سیدھے نا جڑے ہونے کے باوجود رپورٹ کے حوالے سے پبلک تبصرہ کیا تھا بنچ کا کہنا تھا اے ڈی جے قانون و نظام کے بارے میں بتایا تھا کہ ہاتھرس انتظامیہ نے مزید سیکورٹی فورس نہیں مانگی تھی اگر مانگ کرتے تو انہیںمہیا کرائی جاتی ہائی کورٹ نے سوال کیا کہ ہاتھرس کے ایس پی کو معتل کردیا گیا اور ڈی ایم کو کیوں وہاں برقرار رکھا تھا؟ عدالت نے مزید نے کہ ہم ریاستی حکومت سے امید کرتے ہیں کہ وہ منصفانہ فیصلہ لیں گے ۔ عدالت میں موجود اپر چیف سیکریٹری ہوم اونیش اوستھی سے پوچھا کہ موجودہ حالات میں جب کی انتم سنسکار کے معاملے میں ڈی ایم کا ایک رول تھا ۔ ایسے میں کیا انہیں ہاتھرس میں ڈیوٹی پر لگائے رکھنا مناسب ہے؟ متاثرہ کے خاندان ، اپر چیف سیکریٹری ،ڈی جی پی ،اے ڈی جے قانون و نظام اور ہاتھرس کے ڈی ایم پروین کمار سے مفصل بات چیت سننے کے بعد عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ دلائل سے ثابت لگتا ہے کہ متوفی کا چہرہ دکھانے کے پریوار والوں کی درخواست پر انتظامیہ نے صاف طور سے انکار نہیں کیا ہوگا۔ معاملہ کا خود نوٹس لیتے ہوئے عدالت نے تمام معاملے سے متعلقہ تمام افسروں کو عدالت میں طلب کیا تھا ان کے علاوہ متاثرہ کے خاندان کے پانچ لوگوں کو بھی بلایا تھا اور عدالت نے یوپی سرکار کو متاثرہ کے خاندان کی مرضی کے بغیر تمام معاملوں پر جم پر پھٹکار لگائی جج صاحب نے ڈی ایم اور اے ڈی جے کو پھٹکار لگاتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کی بیٹی ہوتی تو کیا آپ یوں ہی انتم سنسکار کردیتے ؟اور متاثرہ کا انتم سنسکار ایسے کیوں کیا گیا ؟ اسے لیکر یوپی حکومت کوئی تسلی بخش جواب نہ دے پائی اور معاملے کی سماعت پھر دو نومبر کو مقرر کرتے ہوئے سبھی کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہاتھرس کانڈ کی متاثرہ لڑکی کے خانداد کے ساتھ مشہور وکیل سیما کشواہا نے ہائی کورٹ میں تمام دلیلں رکھی عدالت نے مانا یہ اہم ایشو ہے جو پولس یا سی بی آئی کی طرف سے اس معاملے کو مجرمانہ جانچ سے ہمارے سامنے آیا ہے کہ کیا گھر والوں کو چہرہ دکھائے بنا رات میں انتم سنسکار کرنا آئین کی دفع 21اور 25کے تحت بنیادہ یا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو اس کا قصور وار کون ہے؟اس کے لئے متاثرہ کے خاندان کے اس نقصان کی کیسے تلافی ہوسکتی ہے ؟اس معاملے میں ہماری پریشانی کی دو وجہیں ہیں پہلی کیا متوفی اور اس کے گھر والوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے؟ دوسرا اس معاملے کا اہم ایشو ان حقوق سے وابستہ ہے جو سبھی شہریوں کو ملے ہوئے ہیں اور اس سے بھی دست یاب ہیں تاکہ انمول آئینی حقوق سے نا تو سمجھوتا کیا جائے نا ہی ذرہ بھر فیصلوں میں انہیں دبایا جائے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟