بہار میں پچھڑی اور انتہائی پسماندہ برادری فیصلہ کن فیکٹر ہوں گی!

بہار چناو¿ میں کوئی پارٹی کتنا بھی زور لگا لے لیکن جب تک پسماندہ اور انتہائی پسماندہ برادریوں کے ووٹ بینک میں سیندھ نہیں لگائے گی اس کے لئے اقتدار حاصل کرنا مشکل ہے ریاست میں ان دونوں برادریوں کی آبادی قریب 52فیصدی ہے اس لئے چناو¿ میں ان پر سب سے زیادہ توجہ رہتی ہے دیگر ریاستوں کے مقابلے ذات پات کے تجزیہ چناو¿ کو کہیں زیادہ پیچیدہ بنا دیتے ہیں کیوں کہ انتہائی پسماندہ اور پسماندہ برادریوں کے لوگوں کی آبادی بہت زیادہ ہے ۔51فیصدی کے اس ووٹ بینک پر سب کی نظر رہتی ہے وہ بھی کانگریس اور بھاجپا جیسی قومی پارٹیاں ان کے ووٹ پانے کے لئے کوشش میں رہتی ہیں کچھ حد تک کامیابی ملتی ہے ۔اوبی سی اور ای بی سی کے ووٹ بہار کی سبھی علاقائی پارٹیوں میں بٹ جاتے ہیںلیکن اس میں سے ایک بڑاحصہ جس کے حق میں ووٹ دیگا اس کے لئے اقتدار کی راہ آسان ہوگی کہنے کی ضرورت نہیں پچھلے اسمبلی چناو¿ میں ان ووٹوں کا بڑا حصہ مہا گٹھبندھن کے حصہ میں گیا تھا اسی وجہ سے این ڈی اے کی سرکار آگئی لیکن اس مرتبہ حالات بدلے ہوئے ہیں جے ڈی یو اور بھاجپا کے ساتھ ہونے اور ایل جے پی کے تنہا چناو¿ لڑنے مسلم دلت رجہان والی پارٹیوں جیسے بی ایس پی ،اوراویسی کی جماعت اے آئی ایم آئی ایم وغیرہ اتحاد اگر ان ووٹوںکو اتحاد کے ذریعے ان ووٹوں کو تقسیم کرنے کا خطرہ کھڑا کر دیا ہے واقف کاروں کا خیال ہے کہ قومی پارٹی کے ساتھ سبھی پارٹیاں ذات پات کی سیاست کرتی ہیں انہوں نے اسی بنیادپر سیٹوں پر ایسے امیدوار اتارے ہیں جو ان دونوں ذاتوں کو متاثرکرتے ہیں اس لئے جو پارٹی ان ذاتوں میںزیادہ پکڑ قائم کر پائے گی اسے اکثریت ملے گی ریاست میں او بی سی ،ای بی سی کی آبادی 26فیصد ہے جبکہ او بی سی 14فیصد یادو 4فیصدکرمی 8فیصد ہیں اس کے علاوہ پارٹیوں کو 14فیصد دلت مہا دلت اور 17فیصد مسلم ووٹروں اور 15فیصد برہمن ووٹوں کے لئے بھی الگ سے جد و جہد کرنی پڑے گی۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟