24آتنکی حملے جھیل چکے بہادر بلوندر سنگھ کا قتل!

پنجاب میں دہشت گردی کے دور میں آتنک وادیوں کا بہادری سے مقابلہ کرنے والے شوریہ میڈل ونر بلوندر سنگھ مکھیونڈ کو صبح جمع کے دن گھر پر دو نامعلوم نقاب پوشوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا ۔ان پر 42بڑے آتنکی حملے ہوئے تھے 1990میں تو 200دہشت گردوں نے اجتماعی طور پر حملہ کیاتھا ان پر کئی ٹیلی فلمیں بھی بنی تھیں ۔جمع کی صبح 7بجے بائک سوار دو نوجوان ان کے گھر کے باہر رکے ان میں سے ایک گھر میں داخل ہوا اور پستول سے فائرنگ کر دی جس سے بلوندر سنگھ کی موت موقع پر ہی ہوگئی یہ واردات گھر میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے میں قید ہو گئی ایک سال پہلے بلوندر پر حملہ ہواتھا ان کے بھائی رنجیت سنگھ نے بتایا بار بار درخواست کے باوجود پولیس نے انہیں سکیورٹی نہیں دی ۔بلوندر سنگھ ،رنجیت سنگھ دونوں کو 1993میں راشٹریہ پتی نے شوریہ میڈل سے نوازاتھا ۔یہ دیش اور دنیا کا پہلا خاندان ہے جس کے چار افراد کو شوریہ میڈل ملا رنجیت سنگھ بتاتے ہیں کہ بلویر اور میں میرا خاندان سردار ہونے کے باوجود ہندو¿ں کے ساتھ بھائی چارے کی طرح رہتے تھے اس لئے کٹرپشندوں کی آنکھوں میں ہم کھٹکتے تھے ۔بلوندر سنگھ اور ان کے پریوار پر کٹر پشندوں نے 20حملے کئے اس لئے ہم نے اپنے گھر کی چھت پر دہشت گردوں سے مقابلہ کرنے کے لئے بوریوں سے بنکر بنا لئے تھے ۔پریوار پر سب سے بڑا حملہ 30ستمبر 1990کی رات میں ہوا اور 8بجے بار بار فائرنگ شروع ہو گئی ۔میں اور میرے بھائی بلوندر کے علاوہ دونوں کی بیوی اور بچے اس وقت چار رشتہ دار تھے ۔آتنکی وادی گولی باری کے ساتھ خالستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے آواز سے ہمیں اندازہ ہوا کہ حملہ آور کافی تعداد میں ہیں اس لئے ہم چاروں پریواروں نے بغیر ڈرے مورچہ سنبھالنے کا فیصلہ لیا چونکہ ہم چھت پر تھے اس لئے آتنک وادیوں کے لئے ہمیں نشانہ بنانا مشکل ہو رہاتھا ہماری گولیاں دہشت گردوں کو لگ رہی تھیں گولیوںسے جب بات نا بنی دہشت گردوں نے گھر پر دستی گولے پھینکیں اور وہ دیوار بھی نہیں توڑ پائے ۔اتنا بڑا حملہ ہونے کے باوجود آدھا کلو میٹر دوری پر واقع تھانہ پولیس نہیں آئی اور نا ہی فوج کے ہیڈ کوارٹر سے مدد پہونچی مڈبھیڑ اتنی لمبی چلی کہ صبح کہ 4بج گئے صبح ہوتے ہی آتنکی فرار ہو گئے صبح گاو¿ں والوں نے بتایا کئی دہشت گردوں کی موتیں ہوئی ہیں۔کئی زخمی ہوئے جنہیں آتنکی اپنے ساتھ لے گئے دہشت گردوں نے راستوں پر اڑچنیں کھڑی کر دی تھیں تاکہ پولیس بچانے آتی تو اس کو بارود سے اڑادیا جائے ۔اس واردات کے تین سال بعد 1993میں سورگیہ راشٹر پتی شنکر دیال شرما نے شوریہ چکر سے نوازا تھا ایسے بہادر شخص کی موت پر بڑا دکھ ہوا ۔اس کے ساتھ پولیس کے رول پر بھی سوالیہ نشان اٹھتا رہا یہ واردات ہمیںیاد دلاتی ہے کہ پنجاب میں اب بھی دہشت گرد سرگرم ہیں۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟