سبھی کے نشانے پر فیس بک !

سوشل میڈیا پر فرضی خبریں پھیلانے کا معاملہ بھار ت سمیت کئی ملکوں میں زور پکڑتا جا رہا ہے۔ فیس بک پر اظہار رائے پر لگام اور اظہار رائے کی آزادی وغیرہ ایشو ز پر بھار ت ہی نہیں بلکہ پوری دنیا بھر میں تشویش کا موضوع بنا ہوا ہے۔حکمراں فریک ہو یا اپوزیشن دونوں ہی فیس بک سے ناراض ہیں اور ان کو اس سے شکایت ہے در اصل یہ سب امریکہ کے ایک اخبار میں پچھلے دنوں شائع ایک خبر میں کہا تھا کی فیس بک میں بھارت کے بھاجپا نیتاو¿ں کے مبینہ استعال انگیز بیانوں کو لیکر ڈھیلارویہ اپنایا اور اپنے قواعد کو ہی نظر انداز کیا اخبار نے بھاجپا اور فیس بک حکام کے درمیاں ملی بھگت کی بات کہی بھارت میں کمپنی کے چیف پر سوال اٹھائے گئے اس کے بعد سیاسی گھماسان مچنا فطری تھا ۔ بھارت سمیت دنیا بھر میں فیس بک پر اٹھ رہی انگلیاں اب معاملے کی جانچ ہوگی اور امریکہ کے 17ماہرین کی ٹیم یہ پتا لگائے گی کی چناو¿ کو متاثر کرنے میں فیس بک کا کوئی رول ہے یا نہیں ؟ اس ٹیم میں سیاست اور جمہوریت اور سماج اور شوشل میڈیا سیکٹر سے ماہرین شامل ہونگے خود فیس بک نے اس کی جانکاری دی ہے اور بتا یا گیا ہے نیو یارک یونیورسٹی و ٹیکساس یونیورسٹی کے ریسرچر شامل ہونگے جو کہ پوری طرح آزاد ہونگے ہم ان کی مدد کرنے کو تیا ر ہیں اتنا ہی نہیں ریسرچ میں آنے والا فیس بک ہی دے گا۔ اور بتا یا گیا ہے نیو یارک یونیورسٹی و ٹیکساس یونیورسٹی کے ریسرچر شامل ہونگے جو کہ پوری طرح آزاد ہونگے ہم ان کی مدد کر نے کو تیا ر ہیں اتنا ہی نہیں ریسرچ میں آنے والا فیس بک ہی دے گا ۔پرکمپنی نے کہا کی ریسر چ کے لئے وہ اپنے انٹرنل ڈاٹا کو اسٹڈی کنندگان سے شیئر کرے گی تاکہ وہ اس کے ذریعہ شوشل میڈیا کے سیاسی اثر کی پڑتال کرسکے بڑی اپوزیشن پارٹی پچھلے کئی دنوں سے مسلسل فیس بک کی شکایت کرتی آرہی ہے اور سابق صدر راہل گاندھی نے امریکی اخبار کی حالیہ رپورٹ کو ٹیوٹر پر شیئر کرتے ہوئے فیس بک اور بھاجپا کے درمیان ساٹھ گاٹھ ہونے کا الزام لگا یا ہے انہوں نے دعوہ کیا کہ بینل الاقوامی میڈیا نے ہندوستانی جمہوریت اور سماجی بھائی چارہ پر فیس بک اور واٹس ایپ کے کھلے حملے کو نے نقاب کردیا ہے وہیں مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ نے بھی فیس بک پر حملہ کیا دہلی اسمبلی کی امن اور بھائی چارہ کمیٹی کی طرف سے اس مسئلے پر میٹنگ ہوئی کمیٹی کے چیئر مین راگھو چڈھا نے کہا کی کاروائی کے دوران تین گواہوں نے اپنا بیان درج کرایا دہلی دنگوں میں فیس بک کا ہاتھ تھا اور فیس بک پر جس طرح کے پروپیگنڈے کے طور پر ڈالا گیا کوشس یہی تھی کی دہلی اسمبلی کے چناو¿ سے پہلے دنگے ہوجائیں ۔مرکزی سرکار نے سرکاری طور سے اپنی ناراضگی کے اظہار کیا ہے بدھ کے روز انفورمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق کمیٹی نے فیس بک کے ہندوستانی چیف کو بلا کر سوال جواب کئے کل لب لبا ب یہ ہے کی سبھی کو فیس بک سے شکایت ہے اور سبھی چاہتے ہیں کی اسے کنٹرول میں رکھا جائے جہاں تک فیس بک کو سوال ہے اس کےلئے سب سے بڑی کامیابی یہی ہوگی کہ وہ جہاں تک فیس بک کا سوال ہے اس کے لئے سب سے بڑی کہ وہ پیسے کے غیر ضروری دباو¿ میں اپنا بیجا استعمال کرے اور نہ ہی کسی کو کرنے دے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟