دنیا بھر میں سب سے زیادہ کورونا کے مریض بھارت میں!

بھارت اُن ملکوں میں شامل ہو گیاہے جنہوں نے کورونا انفیکشن کی رفتار کو روکنے کے لئے سخت قاعدے نافذ کئے ،خاص طور سے لاک ڈاﺅن نافذ کرنے کے معاملے میں بھارت نے دوسرے دیشوں کے مقابلے زیادہ سختی اور احتیاط برطی لاک ڈاﺅن مارچ میں شروع ہو کر اب بھی جاری ہے اور اس کا اثر معیشت پر پڑنے لگا ہے ۔اب عام لوگوں کے سامنے روزی روٹی کی چنوتی کھڑی ہوجانے کے پیش نظر لاک ڈاﺅن میں مرحلے وار راحت دی جا رہی ہے ۔اور آہستہ آہستہ عام زندگی پٹری پر لوٹ رہی ہے لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اس نرمی کو انفیکشن نہ روکے جانے کی وجہ بھی مانا جانے لگا ہے ۔حالانکہ سچائی یہ ہے کہ سب سے زیادہ قاعدے لاگو کرنے کے باوجود کورونا کو روکا نہیں جا سکا ۔اب سو دنوں میں معاملے 35لاکھ کو پار کر گئے ہیں سوال یہ بھی ہے کہ جس دور میں ہر طرف کاروبار ی و صنعتی سرگرمیاں بند تھیں لوگ گھروں سے نہیں نکل رہے تھے آج حالت یہاں پہنچ گئی ہے دیش میں ایک دن میں ریکارڈ75ہزار 760مریض سامنے آگئے ہیں ۔یہ دنیا کے کسی بھی دیش میں ایک دن میں ملنے والے نئے مریضوں کا ریکارڈ بھی ہے ۔جمعرات کو دیش میں کل ایک دن میں وائرس کی وجہ سے 1023لوگوں کی جان گئی۔ اور مرنے والوں کی تعداد 60ہزار سے اوپر چلی گئی ہے اور مریضوں کی تعداد کے معاملے میں بھارت نے برازیل کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔اور دنیا میں دوسر ے نمبر پر آگیا ۔اس درمیان دہلی میں کوڈ کے پھر سے بڑھتے مریضوں کے بارے میں ایسپرٹ کا کہنا ہے کہ اگر یہ انفیکشن لوگوں کی لاپرواہی کی وجہ سے بڑھ رہا ہے تو یہ فکر کی بات ہے ۔ابھی اور زیاد ہ الرٹ رہنے کی ضرورت ہے ۔انسٹی ٹیوٹ آ ف لیور اینڈ بلیری سائنس کے ڈائیکٹر ڈاکٹر ایس کے سرین نے کہا کہ جس طرح دہلی میں پھر سے انفکیشن کے معاملے بڑھ رہے ہیں وہ بھلے ہی تشویش کی بات نہ ہو لیکن اس پر توجہ دینی ہوگی ۔دہلی کی آبادی میں ایٹی باڈیز اچھی طرح پیدا ہو گئی ہے اس لئے بہت زیادہ ڈرنے کی بات نہیں اور دس سے پندرہ دن میں کنٹرول کر لیا جائے گا ۔جانچ کا دائرہ بڑھانے سے انفیکشن کے مریضوں کی پہچان تو ہو سکتی ہے لیکن اس پر پوری طرح قابو پانے کا یہ اکیلا راستہ نہیں ہو سکتا توجہ دینے کی ضرورت ہے جب تک وبا کو لے کر لوگ خود چوکس نہیں ہوں گے تو وائرس کے توڑ کے اقدامات کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے تب تک انفکیشن پر قابو پانا مشکل ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟