پرنب دا کا جانا !

سابق صدر پرنب مکھرجی کے ندھن کے ساتھ ہندوستانی سیاست کے ایک دور کا خاتمہ ہوگیا ۔ان کی موت پرانی پیڑھی کے ایک ایسے قد آور سیاست داں کی نا قابل بھلانے والی ہے ۔جن کے سیاسی اشتراک کو آسانی سے بھلایا نہیں جا سکتا ۔اپنی خوبی اور سادگی اور دور اندیشی و جمہوری برتاو¿ کے نظریہ سے وہ جو خلاءچھوڑ گئے ہیں اس کو پر کرنا ناممکن ہے ۔چھ دہائی سے زیادہ سیاسی کیرئیر میں پرنب مکھرجی نے اندرا گاندھی سے لیکر منموہن سنگھ سرکار (راجیو گاندھی کو چھوڑ کر )تک میں کام کیا ۔ان سبھی وزرائے اعظم کے دور میں وہ اہم رول میں رہے ہیں ۔بہترین سیاسی سوجھ بوجھ اور آئین پر پکڑ مشکل حالات سے نمٹنے میں سمجھداری کے چلتے وہ وقتا و فوقتاً کانگریس کے لئے سنکٹ موچک ثابت ہوئے ۔پرنب مکھرجی کا دیہانت فوجی اسپتال میں ہوا ۔ان کو کورونا ہوگیا تھا ۔جس وجہ سے دس اگست کو بھرتی کرائے گئے ان کے دماغ کا آپریشن بھی ہوا تھا ۔حالت بگڑنے پر انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تھا بعد میں پھیپھڑوں کے انفیکشن کی وجہ سے انہیں بجلی کے شاٹ بھی لگائے گئے اس سے بلیٹ پریشر نے کام کرنا بند کر دیا ۔اور آکسیجن ملنی بند ہوجاتی ہے ۔سورگیہ کچھ دنوں سے وہ بیماریوں سے جس طرح لڑتے رہے وہ ان کی ہمت کا حصہ ہی تھا ۔1968-69کے دوران کانگریس سیاست میں جڑنے والے پرنب دا نے عام زندگی میں نا صرف لمبا سفر طے کیا بلکہ 2012میں صدر بننے سے پہلے وہ وزارت داخلہ کو چھوڑ کر ڈیفنس خارجہ وغیرہ ذمہ داریاں سنبھال چکے تھے ۔اس سے گریز نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ایک اچھے وزیر اعظم بھی ثابت ہو تے اگر انہیں موقع دیا جاتا مگر سیاست کا کچھ کھیل ایساہی تھا 1984میں پہلی بار ابدرا گاندھی کے قتل اور اس کے بعد 2004میں یو پی اے کے اقتدار میں آنے پر وہ وزیر اعظم بنتے بنتے رہ گئے ۔اپنے لمبے سیاسی اشتراک میں انہوں نے مرکزی وزیر اور اپوزیشن لیڈر کے ساتھ ساتھ صدر کی شکل میں جس لگن اور ایمانداری سے کام کیا وہ نیک پیڑی کے نیتاو¿ں کے لئے ایک مثال ہے ۔اپنے سیاسی تجربہ اور ٹیلنٹ کے نتیجہ سے انہیں وزیر اعظم کے عہدے کے لئے بہتر مانا گیا ۔لیکن انہیں نہیں بنایا گیا وہ فیصلے لینے کے لئے بھی جانے جاتے تھے مشکل سے مشکل حالات میں وہ سامنا کرنے کے لئے بھی آگے کھڑے ہوتے تھے بیشک پرنب دا کوئی مائنڈٹ والے نیتا بھلے نہیں تھے لیکن ان میں آئینی تقاضوں اور پارلیمانی سیاست کی گہری سمجھ تھی ۔حقیقت میں تاریخ ان کے کاموں کو ہمیشہ یاد رکھے گی ۔ایک ایسے سیاست داں کی شکل میں یاد کریگا ۔جس کی زندگی پوری طرح سے سادگی اور ہندوستانیت سے لبریز تھی ان کے انہیں اقتدار کو بنائے رکھنا انہیں سچی شردھانجلی ہوگی ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟