جے شری رام !

492برس بعد آخر کار شبھ گھڑی آہی گئی ۔1528میں بابر کی شہہ پر آیودھیا میں جس مندرکو توڑ دیا گیا تھا وہاں بھویہ شری رام جنم بھومی مندر کی تعمیر 5صدی سے ہو رہا انتظار ختم ہو گیا اور تاریخی لمحہ اس وقت آگیا جب بدھوار کو شبھ مہورت 12بج کر 15منٹ 15سکنڈ پر پی ایم مودی کے ہاتھوں شری رام جنم بھومی استھل پر مندر کی تعمیر کیلئے علامتی بھومی پوجن کے ساتھ باقاعدہ مندر تعمیر کا کام کا آغاز ہو گیا ہے اس کے ساتھ ہی کروڑوں رام بھکتوں کا انتظار کے ساتھ ہی ان کے سارے اندیشے اور شش وپنج بھی ختم ہو گیا ان ہزاروں سورگیہ آتماو¿ں کو شانتی ملے گی جو اس جگہ پر بھویہ رام مندر تعمیر کا عزم اور خواب تعبیر ہونے کا انتظار کرتے کرتے دنیا سے چلے گئے اب لوگوں کو انتظار رہے گا تو صرف اس گھڑی کا کہ مندر تعمیر پوری ہونے کے بعد رام للا اپنے اصلی جگہ پر ورجیں گے لیکن یہ انتظار پہلے جیسا نہیں ہوگا ۔مندر تعمیر کی شروعات صرف رام بھگتوں کی ہی نہیں ان شیلاو¿ں اور پتھروں کا بھی انتظار ختم کریگی جو کئی دہائیوں سے رام مندر میں اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں ۔ہندوستانی عوام میں رام گہرے اور بہت گہرے سمائے ہوئے ہیں ۔اور ہر شکل میں سامنے آنے والے مثالی شخص بھی ہیں وہ جنگ جنگ کے ایسے راہ عمل کے انسان ہیں جنہوں نے فرض کی ادائیگی کی ایک ایسی مثال پیشسش کی جو بھارت میں ہی نہیں پوری دنیا اور پوری انسانیت کیلئے مشعل راہ ہے ۔مریادا پرشوتم رام نے فرض کی ادائیگی کی جو تلقین کی وہ آج بھی راہ دکھاتی ہے اس تلقین سے یہ قوم ہر دن ہر لمحہ ترغیب لیتی ہے اور اس لئے ان کے نام کا مندر بنانے کو لیکر بہت ہی امید افزا ہے رام مندر تعمیر کا صدیوں پرانا انتظار پوراہونا تریتھا یگ کے رام کی کلیوگ میں ایک اور وجے ہے اسی کے ساتھ وجے صبر کی تھی بھروسہ کی اور اصولوں پر چلنے کی اور چونکہ دھرم ہی ادھر م پر دھرم کی جیت بھی ہے اس لئے شری رام جنم بھومی مندر کا بھومی پوجن جن جن کو خوش کرنے والا ایک اتسوہے ایودھیا میں رام کے نام کا مندر بننا اس کی مہیما کا گان بھی ہے اور دیش کی کلچر وراثت کو تقویت دینے والے راہ عمل کا پر تعمیل ہونا بھی یہ موقع ہندوستانیت کے قول کے ساتھ ہی اس عزم کی تکمیل بھی ہے کہ ہم بھارت کے لوگ رام کی جے کرتے اور ان کی گاتھا گاتے اور فرض کے راستے پر چلتے رہیں گے بغیر اس کے بنا تھکے اور بنا رکے شوراج کے کتنے ہی مطلب بیان کئے گئے تو بھی میرے قریب اس کا ترنکال ستیہ ایک ہی ارتھ ہے اور وہ ہے رام راجیہ ۔رام راجیہ لفظ کی تشریع یہ ہے کہ اس میں غریبوں کی مکمل حفاظت ہوگی اور سب کام مذہبی دائرے میں کئے جائین گے اور عوام کا ہمیشہ احترام کیا جائیگا ۔یہ یاد رہے رام راجیہ قائم کرنے کے لئے ہمیں جس گن کی ضرورت ہے وہ تو سبھی طبقوں کے لوگوں میں آج بھی موجود ہے ۔(بابائے قوم مہاتما گاندھی 20مارچ 1950کو انگلش میگزین میں سوراج اور رام راجیہ کے لکھے حصے )۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟