ایجوکیشن پالیسی میں وسیع تبدیلی!

مرکزی کیبنیٹ نے آخرکار 34سال پرانی ایجوکیشن پالیسی میں تبدیلی کر کے ایک نیا باب رقم کر دیا ہے ۔بدلتے پس منظر میں اس میں اسکول سے لے کر ہائیر ایجوکیشن سیکٹر میں کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں ،جو پالیسی ساز پہل ہے ۔وہ آنے والے وقت میں ملک اور سماج کے مختلف پہلوﺅں کو گہرائی سے متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔اسکولی سطح پر 10+2سسٹم کو الوادع کر دیا گیا ہے ۔اس کی جگہ 5+3+4لانے کی قواعد ایسی ہے جس سے بچے نو عمری میں ہی باقاعدہ طور پر اسکول کی دہلیز پر کھڑے کر دئیے جائیں گے ۔لیکن یہ سچائی ہے کہ ان کے رویے میں ایسا سماج پنپ رہا ہے اس کے علاوہ اسکولی تعلیمی سطح پر کچھ ایسی پہل کی گئی ہے جس کی تعلیمی ورلڈ میں برسوں سے مانگ کی جا رہی تھی ۔مودی سرکار 2014میں پہلی بار جن وعدوں کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی اس میں نئی تعلیمی پالیسی بھی شامل تھی ۔اور اس کے بعد سے اس پر بدستور کام جاری تھا ۔1986میں لاگو کی گئی موجودہ تعلیمی پالیسی کی جگہ لینے والی نئی ایجوکیشن پالیسی کے تحت وزارت انسانی ترقی کا نام پھر سے بدل کر وزارت تعلیم ہو جائے گا ۔پچھلے ساڑھے تین دہائیوں میں نہ صرف ٹیکنالوجی کا ڈیپلمینٹ ہوا ہے بلکہ عالمی پس منظر میں بھی بڑی تبدلیاں آئی ہیں ۔اس کے علاوہ موجودہ تعلیمی سسٹم کئی اسٹنڈرڈ پر کسوٹی پر کھرا نہیں اترا ۔نئی تعلیمی پالیسی میں وسیع پیمانے پر تبدیلی کا اعلان کیا گیا ہے ۔اسے دیکھتے ہوئے کم سے کم یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ سرکار نے تبدیلیوں کو لے کر کوئی سستی نہیں دکھائی چاہے تعلیم کا دائرہ بڑھاتے ہوئے اس میں تین سال کی فری اسکولنگ معیاد کو شامل کرنے کی بات ہو یا کم سے کم پانچویں کلاس تک کا ذریعہ تعلیم مادری زبان یا مقامی یا علاقائی زبان کو بنانے کی ہو ایسے تمام بڑے بڑے فیصلے نئی تعلیمی پالیسی میں شامل ہیں جن پر سماج میں تلخ بحث جاری ہے ۔موجودہ تعلیمی سسٹم آج کے زمانے میں کئی سطح پر کسوٹی پر کھرا نہیں اُتر پا رہا ہے ۔مثلاتحریکی رپورٹ سال در سال دکھائی آتی ہے کہ کیسے ہائی اسکول کے طالب علم ابتدائی تعلیم کے ریاضی یا زبان سے جڑے عام سوالات کا جوابات نہیں دے پاتے تھے ۔یا پھر کیسے ڈگریاں لے کر کالج چھوڑنے والے لاکھوں نوجوان روزگارکے بازار میں خود کو پست پاتے ہیں ۔لیکن نئی تعلیم پالیسی میں ابتدائی اسکولوں کی تعلیم سے پہلے تین سال سے چھ سال کی عمر کے بچوں کے لئے پہلے پرائمری کا ایک نصابی اور بنیادی شکل سے ایک اہم ہے ۔کیونکہ تعلیم میں شہری و دیہات یا اقتصادی یا سماجی اسباب سے بننے والا عدم توازن امور سے ہی شروع ہو جاتا ہے ۔امتحان اور نمبروں کا سسٹم میں ایسی تبدیلی کی توقع کی جا رہی ہے کہ بچے ذہنی دباﺅ میں نہ رہیں اور ان میں محاسبہ صلاحیت کا فروغ ہو اسی طرح بچے کے بستے کا کتابوں کا بوجھ کم کرنے کی کوشش قابل خیر مقدم ہے ۔دراصل وسیع تبدیلی کی امید جگاتی ہے نئی تعلیمی پالیسی عمل کی کسوٹیوں پر کتنی کھری اترتی ہے یہ دیکھنے کے لئے تھوڑا انتظار کرنا ہی ہوگا ۔تعلیم کے کمرسلازیشن پر سرکار نے کنٹرول نہیں کیا تو یہ برابری کی علامت سماج کے فروغ میں رکاوٹ بن سکتی ہے ۔ممکن ہے کہ کچھ سیاسی پارٹیاں اس لئے اس کی مخالفت بھی کریں ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟