سپریم کورٹ پر اٹیک کرنا دیش کے ججوں کا بھروسہ ہلانا!

سپریم کورٹ نے وکیل پرشانت بھوشن کے دو ٹوئٹ کو عدالت کے لئے توہین آمیز مانتے ہوئے انہیں مجرمانہ توہین عدالت کا قصوروار قرار دیا ہے ۔اُس کا کہنا ہے کہ بھوشن نے سپریم کورٹ جیسے بڑے ادارے کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے انہوںنے ٹوئٹ کو مفاد عامہ میں عدلیہ کی صحت مند نکتہ چینی کے زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا ۔انہوںنے کہا کہ عدلیہ پر افسوسناک حملے پر جج صاحبان کی فراخ دلی کو کمزروری نہیں مانا جانا چاہیے ۔اس معاملے میں 20اگست کو سزا کا علان ہوگا خیال رہے کہ پرشانت بھوشن نے ایک ٹوئٹ کی چیف جسٹس اروند بوبڑے کے بارے میں کیا تھا اور دوسرا سپریم کورٹ کے طریقہ نظام پر انگلی اُٹھائی تھی ۔عدالت نے دونوں ٹوئٹ کا نوٹس لیتے ہوئے توہین عدالت کی کارروائی شروع کر دی تھی ۔عدالت کی توہین قانون کے تحت توہین عدالت کے قصوروار شخص کو چھ مہینے کی معمولی قید یا دو ہزار روپئے جرمانہ یا دونوں سزا ہو سکتی ہے ۔جسٹس ارون مشرا ،جسٹس بی آر گوئی ،جسٹس کرشن مراری کی بنچ نے 108صفحات کے فیصلے میں کہا کہ بھوشن کے ٹوئٹ ایک ساتھ صرف دو ججوں پر حملہ نہیں تھا بلکہ عدالت کے پچھلے چھ برسوں کے کام کاج پر بھی نکتہ چینی ہے ۔ایسے حملوںسے سپریم کورٹ کے اخیتار کے تئیں نہ اتفاقی یا بے عزتی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جسے بالکل نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ٹوئٹ غلط دلائل پر مبنی تھے ۔وکیل پرشانت بھوشن نے موجودہ اور تین سابق چیف جسٹس صاحبان کے خلاف بے بنیاد الزام لگائے تھے جو بلا شبہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے ۔عدلیہ پر منظم طریقہ سے نکتہ چینی کرنے والوں سے سختی سے نہیں نپٹا گیا تو دیش کے دوسرے ججوں کو بھی غلط سندیش جائے گا لہذا ایسا کرنے والوں سے سختی سے نمٹنا ضروری ہے ۔عدالت کا کہنا تھا کہ اس بات بھی امکان ہے کہ دیگر ججوں کو بھی لگے گا کہ جب سپریم کورٹ خود کو اپنی بے عزتی سے بچانے میں ناکام رہی ہے تو وہ ایسے معاملوں سے کیسے اپنے آپ کو بچا پائیں گے؟لہذا مفاد عامہ کی حفاظت کے لئے بڑی عدالت پر حملوں کی کوشش سے سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے ۔پرشانت بھوشن کی طرف سے سنیئر وکیل دشینت دوبے کی طرف سے بھوشن کا بچاﺅ کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ دونوں ٹوئٹ سپریم کورٹ کے خلاف نہیں تھے بلکہ ججوں کے خلاف تھے اور ان کی شخصی صلاحیت کے تحت ذاتی برتاﺅ کو لے کر تھے ۔وہ افسوسناک نہیں ہے ۔اور انصاف انتظامیہ میں رکاوٹ نہیں ڈالتے ہیں ۔اور عدلیہ کی ترقی میں بھوشن کا بہت بڑا یوگدان ہے اور کم سے کم پچاس فیصلوں کا کریڈیٹ انہیں جاتا ہے ۔بڑی عدالت نے بھی 2جی اسپیکٹرم الاٹ منٹ کوئلہ کھدان الاٹ منٹ گھوٹالے وغیرہ معاملوں میں ان کے اشتراک کی تعریف کی ہے ۔سپریم کورٹ نے کہا کہ پرشانت بھوشن 30سال سے وکیل ہیں اور عدلیہ کو ایک ذمہ دار افسر میں کام کرنے کی توقع تھی اور اس طرح کے توہین آمیز الزامات کی امید نہیں کی جاسکتی جو افسوسناک ہے ۔اور کورٹ کو بدنام کرنے کی ذہنیت رکھتے ہیں ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟