بہار میں نہیں مانگا جائے گا کوئی دستاویز

دیش بھر میں شہریت ترمیم قانون اور قومی آبادی رجسٹر (این پی آر )اور این آر سی کو لے کر پھیلی عوامی ناراضگی اور تشدد کے بعد بہار نے راستہ دکھایا ہے دہلی اسمبلی میں اتفاق رائے سے پرستاﺅ پاس کر دیا ہے کہ بہار میں این آر سی نافذ نہیں ہوگا این پی آر 2010کے فارمیٹ کے مطابق ہی ہو گا۔بہار میں این پی آر کے لئے کسی سے بھی نام پتہ اور تاریخ پیدائش وغیرہ کولے کر کوئی بھی دستاویز نہیں مانگا جائے گا۔یہ 2010کے پیٹرن پر صرف جنس کا نئے پیمانے پر مبنی ہوگا وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اسمبلی میں آر جے ڈی کی کام روکو تحریک کی منظوری اور اس پر بحث کے دوران واضح کیا اس سلسلے میں اتفاق رائے سے رزولیشن پاس کر کے مرکزی حکومت کو بھیجنے کی بات کہی ہے اب کسی شخص کے ماں بات کی پیدائش کا سرٹیفکٹ رہائشی ثبوت و اس کی پچھلی رہائشی مقام نہیں پوچھا جائے گا دہلی میں فرقہ وارانہ تشدد میں 35سے46لوگوں کی قربانی کے بعد مرکزی حکومت کو شاید احساس ہونے لگا ہے کہ اس کو قدم پیچھے ہٹانے پڑ سکتے ہیں لہذا بہار میں اقتدار میں رہتے ہوئے بھی پارٹی کے ممبران اسمبلی نے اس پرستاﺅ پر اپنی رضامندی دی ہے اس وقت پارٹی کے نیتا اور نائب وزیر اعلیٰ سشیل مودی نے اعلان کیا تھا کہ بہار میں 15سے 20کے درمیان این پی آر ان کی کارروائی پوری کی جاے گی اس بارے میں وہ ممبران کی رضامندی کا جائزہ لے رہے تھے پچھلے دنوں ایوان میں اسپیکر نے اس وقت سب کو چونکا دیا جب انہوںنے اردو نے اپنی تقریر پڑھی تو بھاجپا حیرت میں رہ گئی ۔اس وقت وزیر تعلیم کرشن چندن نے تقریر ختم ہونے پر کہا کہ سبحان اللہ ۔تو بھاجپا کے ایک ممبر نے جے شری رام کہا بہر حال سیاسی شطرنج میں بساط دلیل کی بنیاد پر نہیں بلکہ موقع کی بنیاد پر ہوتی ہے یہ نتیش کمار نے ثابت کر دیا ہے ۔تیجسوی یادو کی لیڈ ر شپ میں صلاحیت کی پول کھل رہی ہے اور ایسے میں آر جے ڈی کا ایک بڑا طبقہ نتیش سے ہاتھ ملانے کی وکالت کر رہا ہے بہار اسمبلی میں این پی آر اور این آر سی پر اپنے من کے مطابق پرستاﺅ کو اتفاق رائے سے پاس کروا کر وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے ایک مرتبہ پھر خود کو ایک با صلاحیت سیاستداں ثابت کرتے ہوئے جے ڈی یو کے ایک تیر سے کئی نشانے لگانے کی کوشش کی ہے ۔بہر حال ایسے پرتشدد ماحول میں بہار میں تھوڑی امید کی کرن ضرور جگائی ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟