اب نیپال نے بھارت کو آنکھیں دکھائیں

اور اب نیپا ل نے بھارت کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیا ہے ۔دیش کے وزیر اعظم کے پی اولی کے ایک بیان سے ہند نیپال کے درمیان چلی آرہی برسوں پرانی دوستی میں کشیدگی کے بادل چھائے دکھائی دے رہے ہیں انہوںنے حکومت ہند کی طرف سے جاری سیاسی نقشے میں بھارت نیپال ،تبت کے ٹرائی جنکشن پر کالا پانی ڈیزاین کو لے کر انہوںنے اعتراض جتایا اور کہا کہ بھارت وہاں سے اپنی فوج فورا ہٹا لے اولی نے دعوی کیا کہ ٹرائی جنکشن پر واقع یہ علاقہ نیپال کے دائرے آختیا ر میں آتا ہے ۔کالا پانی تنازعہ ویسے تو کافی پرانا ہے ،لیکن اس کی تازہ شروعات جموں و کشمیر کے بٹوارے کے بعد حکومت ہند کے نئے نقشے کو جاری کرنے سے ہوئی ہے ۔ہندوستانی وزارت داخلہ کے ذریعہ سے حال ہی میں جاری سیاسی نقشے میں کالا پانی علاقہ کو ہندوستانی حدود کے اندر دکھایا گیا ہے اس نقشے پر ہی نیپال نے اعتراض کیا ہے جانے کیا ہے کالا پانی تنازعہ :اتراکھنڈ بارڈر پر نیپال بھارت اور تبت ٹرائی جنکشن پر واقع کالا پانی قریب 36ہزار میٹر کی اونچائی پر ہے ۔ہندوستان کا کہنا ہے کہ قریب 35مربہ کلو میٹر کا یہ علاقہ اتراکھنڈ کے پتھورا گڑھ ضلع کا حصہ ہے اُدھر نیپال سرکار کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ اس کے دارمولہ ضلع میں آتا ہے ۔سال 1962میں بھارت چین کے درمیان جنگ کے بعد سے اس علاقہ پر بھارت کے سیکورٹی جوان آئی ٹی بی پی کا قبضہ ہے ۔دونوں ملکوں کے درمیان تنازعہ مہاکالی ندی کے ادرگم استھل کو لے ہے ۔یہ ندی کالا پانی علاقہ سے گزرتی ہے دراصل بھارت چین نیپال کے ٹرائی جنکشن پر واقع کالا پانی علاقہ فوجی اہمیت کے نظریہ سے کافی اہم ترین ہے ۔نیپال سرکار کا دعوی ہے کہ سال 1816میں اس کے اور اس وقت کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے درمیان ہوئے سوگولی معاہدے کے مطابق کالا پانی اس کا علاقہ ہے ۔حالانکہ اس معاہدے کے آرٹیکل پانچ میں کہا گیا ہے کہ نیپال و کالی (اب مہاکالی )ندی کے مغرب میں پڑنے والے علاقہ میں اپنا دعوی نہیں کرئے گی ۔1860میں پہلی بار اس علاقہ میں زمین کا سروے ہوا تھا 1929میں کالا پانی کو بھارت کا حصہ قرار دیا گیا تھا اور نیپال نے بھی اس کی توثیق کی تھی ۔ترویندر سنگھ راوت (وزیر اعلیٰ اتراکھنڈ )نے کہا کہ کالا پانی بھارت کا حصہ ہے اور رہے گا نیپالی وزیر اعظم کا بیان افسوسناک ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ نیپال کی بینادی تعثیر میں کچھ غلط عناصر آگئے ہیں ۔نیپال بھارت کا دوست ملک ہے اوردونوں ملکوں کی تہذیب ایک ہے اس لئے بات چیت کے ذریعہ مسئلے کا حل کیا جائے گا ۔سابق خارجہ سیکریٹری ششانک کا کہنا ہے کہ اس طرح کی خبر ہے کہ نیپالی سرحد کے کچھ علاقوں میں چینی فوج کی موجودگی کو لے کر اُٹھے تنازعہ پر کافی احتجاج ہو رہا ہے ۔اس کی وجہ سے توازن بٹھانے کی حکمت عملی کے تحت سرکار کالا پانی کو لے کر سوال اُٹھا رہی ہے ۔انہوںنے اس اندیشے بھی انکا رنہیں کیا نیپال کی تازہ حرکت کے پیچھے بھی چین کا ہاتھ ہو سکتا ہے ۔بہر حال نیپال کا تازہ رخ یقینی طور پر باعث تشویش ہے ۔بھارت اور نیپال میں کافی دوستانہ رشتے رہے ہیں پوری امید ہے کہ بھارت نیپال کو اپنا موقوف سمجھانے میں کامیاب رہے گا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت ہند اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے ۔بھارت کا رخ نیا نہیں ہے ۔لیکن پہلی بار نیپال کی طرف سے اس طرح کی بیان بازی ایک نیا جنم لے رہی ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟