مہاراشٹرپر سپریم کورٹ کا دور رس تاریخی فیصلہ

منگل کے روز یوم آئین تھا ،عزت مآب سپریم کورٹ نے اس تاریخی دن ایک تاریخی فیصلہ دیا ،وہ تھا مہاراشٹر میں دیوندر فڑنویس نے جس طریقہ سے سرکار بنانے کی کوشش کی اور جس ڈھنگ سے ریاستی گورنر نے انہیں طاقت آزمائی کے لئے لمبا وقت دیا اسے سپریم کورٹ نے پلٹ کر ہندوستانی آئین کی حفاظت ہی کی ہے ۔سپریم کورٹ نے جب ایوان میں فلور ٹیسٹ کا حکم دیا ،شاید اس کے بہت پہلے ہی مہاراشٹرکے وزیر اعلیٰ دیوندر فڑنویس کو یہ سمجھ میں آگیا تھا کہ ان کے لے نئی سرکار کے اپنے افسانے کو کسی انجان تک پہچانا اب ممکن نہیں ہے ۔اس لئے انہوںنے استعفی دینے میں ہی بھلائی سمجھی حلف لینے کے محض 28گھنٹے بعد ہی انہوںنے پریس کانفرنس میں اپنے استعفی کا اعلان کر ہی رہے تھے کہ ان کے نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار اس سے پہلے ہی استعفی دے کر ایک مرتبہ پھر پالا بدل چکے تھے ۔مہاراشٹر میں سرکار بنانے کو لے کر مہینے بھر سے جس طرح کی جوڑ توڑ اور اتھل پتھل والی سرگرمی جاری تھی ان پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد شاید ہی اب روک لگے اب نئے اتحاد کے لئے سرکار بنانے کا راستہ صاف ہو گیا ہے ۔سپریم کورٹ کی بنچ نے سارے مخالفتوں کو در کنار کر 27نومبر کو فلور ٹیسٹ کا حکم دیا تھا اس نے صاف کہا کہ ممبران اسمبلی کی حلف کے بعد فورا فلور ٹیسٹ ہونا چاہیے اس کے ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ فی الحال یہ انترم حکم ہے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں بھی سپریم کورٹ میں اس مسئلے پر سماعت ہو سکتی ہے ۔کورٹ نے اعتماد کے تجویز پر کہی یہ باتیں :اسپیکر کا چناﺅ نہیں ہوگا ،عام طور پر سب سے سینر ممبر اسمبلی ہی پروٹیم اسپیکر ہوتا ہے شام کو پانچ بجے تک فلور ٹیسٹ ہو جانا چاہیے اور اس کا لائیو ٹیلی کاسٹ ہوگا خفیہ ووٹنگ نہیں ہوگی ۔سیکریٹ بلیٹ سے پولنگ سے انکار کر سپریم کورٹ کی ووٹنگ کی کارروائی کو صاف ستھرا رکھنے کی پہل کا خیر مقدم ہے ۔ان شرائط کو رکھنے کے علاوہ مہاراشٹر کے موجودہ سیاسی حالات اور ممبران اسمبلی کو لے کر مچی کھینچ تان پر بھی تلخ ریمارکس دیے ۔جسٹس رمنہ کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ ایک مہینے سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے اور ممبران اسمبلی نے ابھی تک حلف نہیں لیا ہے ۔سرکار بنانے کی ممبران کی خرید و فروخت نہ ہو ۔اس کے لئے ضروری ہے کہ انترم حکم دیا جائے یہی نہیں عدالت نے کہا کہ ممبران اسمبلی اور عدلیہ کو الگ الگ سیکٹروں کا احترام کیا جانا چاہیے عدالتوں کو آخری متابادل کے طور پر ہی دخل دینا چاہیے مہاراشٹر بھی ایک ایسا ہی معاملہ ہے وہاں جو کچھ ہوا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر گھوٹالہ آخر میں سپریم کورٹ میں آئےیہ صورت کسی طرح بھی ٹھیک نہیں ہے ۔سب سے ضروری یہ سوچنا ہوگا کہ سرکار بنانے کی کارروائی کو کس طرح شفاف بنایا جائے تاکہ یہ معاملہ بار بار نہ اُٹھے بھارت کی سیاست میں ایسا پہلے شاید ہی ہوا ہو جب اسمبلی چناﺅ کے بعد سرکار بنانے کے لئے کسی ریاست میں سیاسی پارٹیوں میں ساری اخلاقیات اور اقدار و روایت کو تار تار کرتے ہوئے اپنی آئیڈیا لوجیوں کو طاق پر رکھ دیا اور عوام کو مینڈیٹ کی توہین کی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں صاف صاف کہا کہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں جتنی تاخیر ہوگی اتنا ہی ممبران اسمبلی کی خرید و فروخت بڑھے گی اس لئے بدھوار تک وزیر اعلیٰ اعتماد کا ووٹ حاصل کریں وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ دونوں ہی حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے ان کے پاس اکثریت ہے یا نہیں اور بدھوار کی شام تک و نمبر نہیں جٹا پائیں گے اس لئے انہوںنے پہلے ہی استعفی دینے میں عافیت سمجھی اقتدارحاصل کرنے کے لئے مہاراشٹر میں جس طرح کا کھیل چلا وہ سیاست میں موقع پرستی اور سودے بازی کی نئی مثال ہے ۔مہاراشٹر معاملے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ گورنر کے ضمیر اور رول پر سوالیہ نشان کھڑے کرتا ہے اس پورے واقعہ نے مہاراشٹر کے گورنر نے بھاجپا کی ہر طرح سے سرکار بنوانے کی کوشش کی ان کے اس ذاتی عمل پر جتنی ملامت کی جائے کم ہے اس مسئلے پر صدر جمہوریہ وزیر اعظم کے ساتھ گورنر کے منصوبوں پر بھی سوالیہ نشان لگتا ہے سپریم کورٹ نے نہ صرف جمہوریت کی حفاظت کی بلکہ یوم آئین پر ایسا فیصلہ سنایا جو مستقبل میں بھی صحیح نظیر بنے گا۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟