ہانگ کانگ کے طلباءبیجنگ کے سامنے ڈٹے

چھ مہینے سے ہانگ کانگ میں جاری شورش رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے ،اب ایک یونیورسٹی میدان جنگ بن گئی ہے ،یونیورسٹی میں جمع جمہوریت حمایتی طلباءمظاہرین نے پولس کو کیمپس میں آنے سے روکنے کے لئے یونیورسٹی کے مین گیٹ پر آگ لگا دی اس کے بعد پولس نے مشتعل طلباءکو روکنے کے لئے مجبوراََ فائرنگ کی حالانکہ پولس کا کہنا ہے کہ اس نے اس کارروائی کے لئے پہلے ہی باربار احتجاجی طلباءکو خبرادار کیا تھا لیکن طلباءمارنے مرنے کو آمادہ ہیں ،اور ہانگ کانگ شہر انتطامیہ اور پولس جمہوریت حمایتوں کے احتجاجی گروپوں کو خاموش کرنے میں ناکام ہو رہی ہے مخالفین کی ابتدائی مانگ کو حکومت نے پانچ مہینے پہلے ہی مان لیا تھا اور اس متنازعہ بل کو واپس لے لیا تھا جس کی وجہ سے مظاہرے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں احتجاج کا یہ جذبہ جہاں ہمت اور دلچسپ ہے وہیں یہ ٹریجڈی بھی ثابت ہو سکتی ہے کہ بیجنگ مظاہرین اہم جمہوریت کے تحت چناﺅ کرانے کے لئے گھٹنے ٹیکنے کو تیار نہیں ہے چین نے خبرا دار کیا ہے کہ وہ سرکار کے خلاف ناراضگی بد امنی کو برداشت نہیں کرئے گی بیجنگ سیدھے شورش کو ختم کرنے کے لئے ہانگ کانگ کے واقعات میں مداخلت کر سکتا ہے ۔چین کے صدر شی جنگ پنگ نے اس بہران پر تلخ رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے دیش اور دو نظاموں کو خطرہ ہے ۔1997میں برطانیہ کے ذریعہ ہانگ کانگ کو چین کے حوالے کئے جانے کے بعد یہاں انتظامیہ اس کے نظام کے تحت چل رہا ہے ایسے میں خونی نتائج برآمد ہونے کے اندیشات بڑھتے جا رہے ہیں چین نے جب سے قانون نافذ کرنے کی کوشش کی تب سے ہی ہانگ کانگ میں ہنگامہ مچا ہوا ہے اور تب سے لاکھوں لوگ سڑکوں پر اترے تھے اس کو دیکھتے ہوئے چین سرکار بھی نرم پڑ گئی تھی لیکن اپنی ناکامی قبول کرنے کے بجائے لوگوں کو مانگ اُلٹا پڑ گئی مظاہرین کی مانگ ہے کہ پولس کے برتاﺅ کی آزادانہ جانچ ہو اور ہانگ کانگ میں جمہوری چناﺅ ہو یہ دونوں مانگیں ایسی ہیں جن کا پورا ہونا شاید ہی چین کے لے ممکن نہیں ہو حالیہ دنوں میں مظاہرین اور تحریک کی آگ یونیورسٹی میں بھی پھیل گئی ہے ۔پولس کی کارروائی میں زخمی ایک طالبعلم کی موت کے بعد تشدد بھڑک گیا ہے ۔یونیورسٹی میں جاری احتجاج سے صاف ہے کہ حکام اور بیجنگ میں شہر کے شہریوں کا اعتامد کھو دیا ہے ۔مظاہرین نے اپنی سنگھرش کو سال 1989میں ہوئے جمہوریت حمایتی تحریک کے برابر مان رہے ہیں جس کی وجہ سے تھیانن چوک میں قتل عام ہوا تھا اس کا خوف ابھی بھی مظاہرین پر کوئی نہیں ہے اور وہ اپنا آندولن جاری رکھے ہوئے ہیں ۔حالانکہ ہانگ کانگ کے مظاہرین کو سمجھوتے کی کوشش کرتے رہنی چاہیے اور اس کی ضرورت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟