سنسکرت پڑھانے والے مسلم پروفیسر پر ہنگامہ افسوسناک

یہ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ خاص اہلیت رکھنے والے کسی شخص کی مخالفت صرف اس لئے کی جائے کہ اس کی مذہبی پہچان الگ ہے ،(مسلمان)وارانسی میں بنارس ہندو یونیورسٹی میں ایک ایسا معاملہ سامنے آیا ہے جو کسی بھی حصاص ترین اور ترقی پسند نظریہ رکھنے والے شخص کے لئے پریشان کرنے کے لئے کافی ہے ،بی ایچ یو میں سنسکرت شعبہ میں مقرر ہوئے ایک مسلم پروفیسر فیروز خان کو لے کر پچھلے ایک ہفتہ سے زیادہ وقت سے طلباءکا دھرنا مظاہرہ جاری ہے ،احتجاجی طلباءمسلم پروفیسر کو مذہب کی بنیاد پر ان کی تقرری منسوخ کرنے کی مانگ کر رہے ہیں ،ایسے یہ اشو ہندتو سے جڑتا جا رہا ہے ،وہیں بی ایچ یو کے سنسکرت شعبہ میں تقرری سے پہلے پروفیسر فیروز خان کا سوال ہے کہ میں ایک مسلم ہوں تو کیا میں طالب علموں کو سنسکرت سکھا نہیں سکتا؟سنسکرت میں میرا خاندانی ناتا ہے سوال اُٹھتا ہے کہ مسلمانوں کو ہندوستانیت کو لے کر آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کے ان بیانوں کے باوجود کہ بی ایچ یو کے سنسکرت شعبہ میں مسلم پروفیسر فیروز خان کی تقرری پر سوال کھڑا کرنا کہاں تک جائز ہے ؟حالانکہ بی ایچ یو نے صاف طو ر پر کہہ دیا ہے کہ انہوںنے وائس چانسلر کی سربراہی میں ایک شفافیت اسکرینگ عمل کے ذریعہ اتفاق رائے سے اہل امیدوار کو چنا ہے ۔سر سنگ چالک موہن بھاگوت نے اڑیشہ میں دانشوروں کی ایک سمینار میں اس سال پچھلے مہینے ہی خطاب میں کہا تھا کہ دنیا میں سب سے سکھی مسلمان بھارت میں ملیں گے کیونکہ ہم ہندو ہیں اور پورا دیش ایک سوتر میں بندھا ہے ۔بھارت کے لوگ کثیر کلچر ،تہذیب ،زبان،او جغرافیائی خوبیوں کے باوجود خو دکو ایک مانتے ہیں اس درمیان بدھ کو سنت سماج فیروز کے گھر پہنچا اور ان کے والد رمضان سے ملاقات کی اور ایک آواز میں کہا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں ،تعلیم کو مذہب سے جوڑنا غلط ہے ہم اس کی مذمت کرتے ہیں ۔فیروز کے والد رمضان نے کہا کہ احتجاج پر آمادہ طلباءاگر میرے خاندان کے پس منظر کو سمجھیں گے تو وہ مطمئن ہو جائیں گے میرے آبا و اجداد سو سال سے رام کرشن کے بھجن گا رہے ہیں ۔میرے چاروں بیٹے سنسکرت یونیورسٹی میں پڑھے ہیں میری چھوٹی بیٹی دیوالی پر پیدا ہوئی جس کا نام لکشمی ہے ۔اسٹسٹنٹ پروفیسر کی شکل میں فیروز خان کو دیگر امتحان دینے والوں کے درمیان سب سے اہل پایا گیا اور اسی وجہ سے ان کی بحالی ہوئی اس طرح نہ صرف سنسکرت زبان کے دانشور ہونے کے ناطے بلکہ آئینی اور شہری حقوق کے ناطے اپنی تقرری والے عہدے پر خدمت کرنے کا ان کا حق ہے ۔لیکن سنسکرت کے استاد کی شکل میں کچھ لوگ قبول نہیں کر سکے جبکہ دوست مذہبی پہچان کے باوجود فیروز خان کی سنسکرت میں خاص اہلیت کو نہ صرف قبول کرنا چاہیے تھا بلکہ روایتی جڑ اور طالبات کے مقابلے زبان کے بڑھتے دائرے کی شکل میں بھی دیکھنا چاہیے تھا جو ہو رہا ہے وہ افسوسناک ہے اور امید کی جاتی ہے کہ بی ایچ یو کے طلباءاس تقرری کو سنجیدگی سے قبول کریں گے اور اپنی تحریک کو ختم کر دیں گے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟