ہائی کورٹ کے جج نے اپنی عدالتی انتظامیہ پر لگائے سنگین الزام

ہماری عدلیہ میں ایسا کم ہوا ہے کہ جب ایک جج نے عدلیہ نظام پر ہی تلخ نکتہ چینی کی ہو ۔پٹنہ ہائی کورٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے پٹنہ ہائی کورٹ کے سب سے سینر جج جسٹس راکیش کمار نے کہا کہ لگتا ہے کہ ہائی کورٹ انتظامیہ ہی کرپٹ عدلیہ کام کو سرپرستی دیتا ہے ۔میں نے جب حلف لیا تب سے دیکھ رہا ہوں کہ جج ،چیف جسٹس کو مکھن لگاتے رہتے ہیں ۔تاکہ کرپٹ حکام کی طرف داری کی جا سکے ۔پٹنہ کے جس ایڈیشن جج کے خلاف کرپشن کا معاملہ ثابت ہوا ان کو برخواست کرنے کے بجائے معمولی سزا کیوں دی گئی ؟انہوںنے نچلی عدالت میں ہوئے اسٹنگ آپریشن معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے اس کی جانچ کی ذمہ داری سی بی آئی کو سونپ دی ۔اس آپریشن میں نچلی عدالت کے ملازمین کو رشوت لیتے ہوئے دکھایا گیا تھا ۔وہ بدھوار کو سابق آئی ایس افسر کے پی رمیہ کے معاملے کی سماعت کر رہے تھے ۔اسی دوران اپنے حکم میں یہ سخت تبصرہ کیا جسٹس راکیش کمار نے رمیہ کی پیشگی ضمانت عرضی بھی خارج کر دی تھی ۔اور تعجب ظاہر کیا تھا کہ ہائی کورٹ سے پیشگی ضمانت کی عرضی خارج ہونے اور سپریم کورٹ سے راحت نہ ملنے کے باوجود وہ کھلے عام گھومتے رہے ۔اور اتنا ہی نہیں وہ نچلی عدالت سے با قاعدہ ضمانت لینے میں بھی کامیاب رہے ۔انہوںنے اس پورے معاملے کی جانچ کرنے کے احکامات پٹنہ ضلع و سیشن جج کو دیا ہے ۔جسٹس راکیش کمار نے صوبے کی نچلی عدالتوں اور ہائی کورٹ کے طریقہ کار نظام پر بھی سوال اُٹھایا ہے ۔کرپٹ افسران کے خلاف الزام کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ڈسپی پلن شکنی کی کارروائی میں جس عدلیہ افسر کے خلاف الزام ثابت ہو جاتا ہے اسے میر ی غیر موجودگی میں مکمل عدلیہ میٹنگ میں برخواست کرنے کے بجائے معمولی سزا دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔لگتا ہے کرپٹ عدلیہ حکام کو سرپرستی دینے کی ایک طرح کی روایت عدالت ہائی کورٹ کی بنتی جا رہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نچلی عدالت کے جج رمیہ جیسے افسر کو ضمانت دینے کی جلدی دکھاتے ہیں ۔جبکہ ہائی کورٹ نے انہیں پیشکی ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا ۔انہوںنے ججوں کے سرکاری بنگلوں میں غیر ضروری خرچ پر بھی سوال کھڑے کئے اور ٹیکس دہندہ کے کروڑوں روپئے بنگلے کی شان و شوکت بنائے رکھنے کے لئے کئے جاتے ہیں ۔جسٹس کمار نے اپنے اس حکم کی کاپی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور کورٹ کے لیگل سیل اور پی ایم او مرکزی وزارت قانون کے ساتھ سی بی آئی ڈائریکٹر کو بھی بھیجنے کا حکم دیا ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟