بسکٹ کمپنی پارلے جی پر جی ایس ٹی کی مار

ہندوستانی معیشت کی مندی کا اثر دیش کی سب سے بڑی بسکٹ بنانے والی کمپنی پارلے جی پر دیکھنے کو مل رہا ہے اس لئے آنے والے دنوں میں بسکٹ کمپنی کے د س ہزار ملازمین کی نوکری پر سنکٹ کے بادل مڈرا رہے ہیں ۔ایک رپورٹ کے مطابق پارلے جی اپنے پروڈکٹس کی بکری میں سست روی کی وجہ سے ہزاروں ملازمین کی چھٹنی کر سکتی ہے ۔بتا دیں کہ پورے دیش میں مشہور پارلے جی بسکٹ بنانے والی کمپنی ہے اور یہ گھر گھر کی پسند بن چکا ہے اور اس پر اثر پڑا تو اس کا بہت برا اثر پڑئے گا ۔کمپنی کے کنٹری ہیڈ مینک شاہ کے مطابق یہ سستی جی ایس ٹی کی وجہ سے آئی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ ہم مسلسل سرکار سے بسکٹ پر جی ایس ٹی گھٹانے کی بات کر رہے ہیں اگر سرکار نے ہماری بات نہیں مانی یا کوئی متابادل نہیں بتایا تو ہمیں مجبوراََ آٹھ سے دس ہزار لوگوں کی چھٹنی کرنی پڑ سکتی ہے ہم نے حکومت نے سو روپئے کلو یا اس سے کم قیمت والے بسکٹ پر جی ایس ٹی گھٹانے کی بات کی ہے جی ایس ٹی لاگو ہونے سے پہلے سستے بسکٹ پر بارہ فیصدی ٹیکس لگایا جاتا تھا لیکن اب تو سبھی بسکٹوں کو اٹھارہ فیصدی جی ایس سلیب میں ڈال دیا ۔بسکٹ کے دام بڑھنے سے بکری میں گراوٹ آگئی کمپنی کے سربراہ کے مطابق پارلے نے بسکٹ پر پانچ فیصدی قیمت بڑھائی ہے جس وجہ سے اس کی فروخت میں بھاری گراوٹ آئی ہے قیمتوں کو لے کر بہت زیادہ نارض ہوتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ انہیں کتنے بسکٹ مل رہے ہیں اور اس فرق کو سمجھنے کے بعد گراہک چوکس ہو جاتے ہیں 90سال پرانی بسکٹ کمپنی پارلے کے دس پلانٹ اور اپنے 125کنٹریکٹ والے پلانٹ ہیں ان میں ایک لاکھ کرمچاری کام میں لگے ہوئے ہیں ۔کمپنی کی سالانہ محصول آمدنی 99.40کروڑ روپئے ہے ۔پچھلے دنوں پارلے کی بڑی مخالف کمپنی برطانیہ انڈسٹریز کے مینجنگ ڈائیرکٹر ورون بیری نے بھی بسکٹ کی بکری میں بھاری گراوٹ کا تذکرہ کیا تھا ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی کے بڑھنے سے گاہک پانچ روپئے کے بسکٹ بھی خریدنے سے کترا رہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ ہماری پیداوار صرف چھ فیصدی ہوئی ہے ۔مارکیٹ کروتھ ہم سے بھی سست ہے ۔اس سے پہلے مارکیٹ ریسرچ فرم میلسن نے کہا تھا کہ اکنومک گراوٹ کی وجہ سے کنزیومر گڈس انڈسٹری ٹھنڈی پڑی ہے ۔کیونکہ دیہی علاقوں میں کھپت گھٹ گئی ہے ان کی رپورٹ کے مطابق نمکین بسکٹ،مسالے،صابن کی فروخت میں کافی سستی دکھائی دے رہی ہے ۔اگر سرکار نے پارلے جی کمپنی کی جی ایس ٹی گھٹانے کی مانگ پر فوری توجہ نہ دی تو کمپنی کے ملازمین کو چھٹنی کی شکل میں خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے اس لئے سرکار کو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟