پریس کی آزادی ون وے ٹریفک نہیں ہو سکتی!

سپریم کورٹ نے نیوز پورٹل دی وائر کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے پریس کی آزادی کو لے کر تلخ اور سخت رائے زنی کی ہے ۔عدالت نے کہا ہے کہ پریس کی آزادی سپریم ہے ۔لیکن یہ ون وے ٹریفک نہیں ہو سکتی اس لئے گھٹیا صحافت کو جگہ نہیں ملنی چاہیے عدالت کی بنچ نے یہ تلخ تبصرہ اس وقت کیا جب وائر کی طرف سے دائر عرضی واپس لینے کے لئے داخل درخواست پر سماعت کر رہی تھی۔مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے بیٹے جے شاہ کی طرف سے داخل ہتھک عزت معاملے میں گجرات ہائی کورٹ کی طرف سے نیوز پورٹل پر مقدمہ چلانے کے لئے دئے گئے حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی گئی تھی ۔ڈیڑھ برس سے التوا میں پڑی عرضی واپس لینے کی اجازت نیوز پورٹل نے دی تھی جج نے توہین کی عرضی دی وائر میں لکھے ایک آرٹیکل پر داخل کی تھی ۔جسٹس ارون مشرا کی بنچ نے عرضی واپس لینے کی اجازت تو دے دی لیکن سخت نارضگی جتانے سے وہ نہیں چوکی بنچ میں جسٹس بی آر شاہ اور جسٹس گوئی بھی شامل تھے جے شاہ کو وضاحت کے لئے صرف چار پانچ گھنٹے کا وقت دینے اور بغیر وضاحت کے ہی خبر جاری کرنے پر سوال اُٹھاتے ہوئے عدالت نے پوچھا کہ یہ کس طرح کی صحافت ہے ؟عدلیہ کے بارے میں کچھ نیوز پورٹل پر جاری ہونے والی خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ اس سے ہم بھی متاثر ہو رہے ہیں ۔اس معاملے میں وہ خود نوٹس لے سکتی ہے ۔لیکن اس لئے عرضی واپس لینے کی اجازت دی کہ عرضی گزار کے وکیل کپل سبل اور سرکاری وکیل کے درمیان تلخ بحث پر سپریم کورٹ نے کہا کہ اس طرح کی صحافت سے پیدا مسائل سے بہت زیادہ نقصان کر چکی ہے ۔سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں پہلے ہی کافی وقت گزر چکا ہے ا س لئے نچلی کورٹ کو جلد سے جلد معاملے کی سماعت پوری کرنی چاہیے ۔غور طلب ہے کہ وائر نے 2014میں مودی سرکار بننے کے بعد گجرات اسمبلی چناﺅ سے پہلے جے شاہ کی ایک کمپنی میں کئی گنا لین دین کی خبر چھاپی تھی اور اس کو اس طرح پیش کیا گیا تھا کہ جے شاہ کی کمپنی کو غیر مناسب فائدہ ملا ہو جے شاہ نے خبر چھاپنے والے نیوز پورٹل اور اس کے بانی مدیروں اور منیجنگ ایڈیٹر وغیرہ صحافیوں کے خلاف کورٹ میں ہتھک عزت کا کیس دائر کیا تھا ۔ابتدائی سماعت میں الزامات کو صحیح پاتے ہوئے مقدمہ چلانے کا فیصلہ لیا مگر اس سے بچنے کے لئے سبھی ملزمان نے گجرات ہائی کورٹ سے مقدمہ منسوخ کرانے کی عرضی داخل کی تھی عدالت نے ہتھک عزت کے الزمات کو صحیح مانتے ہوئے مقدمہ چلانے کی اجازت دی تھی ۔ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف پورٹل کے سبھی ذمہ دار سپریم کورٹ پہنچے تھے۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟