کلبھوشن کیس میں بھارت کی اخلاقی و قانونی کامیابی

نیدر لینڈ کے شہرہیگ میں قائم انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی جے)نے ہندوستا نی بہریہ کے ریٹائرڈ افسر کلبھوشن جادھو کے معاملے میں جو فیصلہ دیا ہے وہ بھارت کے لئے قانونی اور سفارتی جیت کی شکل میں آیا ہے عدالت ہذا نے اکثریت سے پاکستان کو ویانہ معاہدے کی خلاف ورزی کا قصوروار مانتے ہوئے اس سے کہا ہے کہ وہ جادھو کی موت کی سزا کا جائزہ اور اس پر نظر ثانی کرئے یعنی 2016سے جاسوسی کے الزام میں پاکستانی جیل میں بند جادھو کی سزا کی موت پر آئی جے کے ذریعہ لگائی روک برقرار رہے گی اس کے علاوہ اس نے جادھو کو سفارتی رسائی دینے کا بھی حکم دیا ہے ۔عدالت نے مانا ہے کہ جادھو کو اتنے دنوں تک قانونی مدد نہ دے کر پاکستان نے ویانہ معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اس نے یہ بھی کہا ہے کہ اس معاملے میں پاکستان کے آئین کے مطابق سماعت ہو مطلب یہ ہے کہ یہ سماعت پاکستانی فوج کی عدالت میں نہیں ہو سکتی بتا دیں کہ 3مارچ 2016کو پاکستان نے کہا تھا کہ جادھو کو بلوچستان سے جاسوسی کے معاملے میں پکڑا گیا تھا بھارت نے مان کہ کلبھوشن ہندوستانی شہری ہے لیکن اس نے اس بات سے انکار کیا کہ کلبھوشن جادھو جاسوس ہے ۔قابل ذکر ہے کہ عدالت نے اکثریت سے دئے گئے فیصلے میں چین کے جج بھی شامل تھے اس پر حیرانی نہیں کہ جو اکلوتا جج فیصلے سے متفق نہیں ہوئے وہ پاکستان کے تھے کلبھوشن جادھو بین الا اقوامی عدالت کا فیصلہ بھارت کی سفارتی اور ساتھ ہی قانونی جیت بھی ہے ۔کلبھوشن کو بچانے کے لئے بین الا اقوامی عدالت جایا جائے یا نہ جائے اس پر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے مودی حکومت نے جس سفارتی ہمت کا ثبوت دیا ہے ۔حکومت کی طرف سے وکیل ہریش سالوے کی دلیلوں کو سن کر بین الا اقوامی عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ وہ کلبھوشن کو سنائی گئی پھانسی کی سزا پر عمل نہ کرئے اسی حکم کے بعد پاکستانی کلبھوشن کے رشتہ داروں کواپنے یہاں آنے کی اجازت دینے کے لئے مجبور ہوا تھا لیکن اس کے باوجود آخری فیصلہ پاکستان کے حق میں نہیں آیا بین الا اقوامی نکتہ چینی کے پیش نظر پاکستان اب جادھو کو پھانسی دینے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا ۔لیکن وہ اسے رہا کر کے لئے بھی مجبور نہیں ہے ۔اس فیصلے کے بعد بھی جادھو کو پاکستان کی جیل میں ہی رہنا ہوگا لیکن ابھی یہ صاف نہیں ہے کہ پاکستان میں اس فیصلہ کو کس طرح لیا جا رہا ہے ۔کیا پاکستان ایمانداری سے اس فیصلے پر سنجیدگی دکھائے گا اور اس پر عمل کرئے گا اب سوال یہ ہے کہ بین الا اقوامی عدالت کا فیصلہ کسی دیش پر کتنا عمل کے لائق ہے ؟اقوام متحدہ چارٹر کی دفعہ 94کے مطابق اقوام متحدہ کے ممبر دیش عدالت کے اس فیصلہ کو مانیں گے جس میں وہ خود فریق ہیں فیصلہ آخر ہوگا اور پر کوئی اپیل نہیں سنی جائے گی ۔پاکستان کے سیکورٹی مشیر سرتاج عزیز نے پاکستانی سینٹ کو بتایا تھا کہ جادھو کے خلاف پختہ ثبوت نہیں ہیں ۔حالانکہ بعد میں وہ اپنے اس بیان سے پلٹ گئے مثبت نتیجہ تو تبھی نکلے گا جب بھارت اگر پاکستان پر اور بین الا اقوامی دباﺅ بنا پائے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟