کرپٹ اور کام چور بابوﺅں کی خیر نہیں

وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے دوسرے عہد میں صاف کر دیا ہے کہ ان کی حکومت کرپشن کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز نہ کرنے کی پالیسی پر چلے گی ۔اس کا ثبوت ہم کو اس وقت ملا جب ان کی حکومت نے وزارت مالیات کے بارہ کرپٹ اور داغ دار ساکھ والے انکم ٹیکس افسران کو بنیادی قواعد کی دفعہ 50(جے )کے تحت جبراََ ریٹائر کر دیا۔یہ قدم قابل تعریف تو ہے ہی بلکہ اس سے سرکاری محکموں میں وسیع کرپشن کو برداشت کرتے رہنے کا جو سلسلہ تھا اس پر روک لگی ہے ۔یہ سبھی افسر انکم ٹیکس میں چیف کمشنر ،پرنسپل کمشنر س اور کمشنر جیسے عہدوں پر تعینات تھے تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ ان میں سے کئی افسروں پر مبینہ طور پر کرپشن ناجائز اور بے حساب اثاثہ بنانے کے علاوہ جنسی استحسال جیسے سنگین الزام تھے۔پیغام سے صاف ہے کہ مودی سرکار میں نکمے اور کام چور سرکاری بابوﺅں کی اب خیر نہیں ہے ۔ان افسروں کے خلاف وصولی کرنا ،رشوت لینا ،اپنے عہدے اور اختیارات کا بے جا استعمال کرنے کے بھی سنگین الزامات تھے جبکہ ایک افسر کو اپنی نا اہلیت کے سبب نوکری چھوڑنی پڑی اب سرکاری بابوﺅں کے کام کاج پر گہری نظر رکھی جائے گی ۔وہ دن گئے جب سرکاری عہدے پر بیٹھے افسر موج مستی کاٹ سکیں حالانکہ اس سے پہلے 2017میں بھی سرکار نے کچھ کرپٹ اور نکمے افسران کو زبردستی ریٹائر کر دیا تھا ۔لیکن کرپشن اور دھاندھلے بازی میں پھنسے اتنے سارے افسران کے خلاف اجتماعی کارروائی کا یہ پہلا ہی معاملہ ہے ۔یوں تو مشتبہ افسران کو ضروری ریٹائر منٹ دئے جانے کا قاعدہ دہائیوں پہلے سے ہی نافذ العمل ہے ۔اتنی بڑ ی کارروائی پہلی بار ہوئی امید کرتے ہیں کہ ایسے افسروں کے خلاف کارروائی آگے بھی ہوتی رہے گی یا تو سرکاری بابو سدھر جائیں نہیں تو عہدے پر رہنا مشکل ہو سکتا ہے ۔یہ کسی سے چھپا نہیں کہ عام شہری ان سرکاری بابوﺅں کی کاہلی کے سبب کتنے پریشان ہیں ۔کوئی بھی سرکاری محکمہ ہو چاہے پیدائش یا موت ان کا سرٹیفکٹ دینے والا بابو ہو چاہے وہ بجلی پانی کے دفتر میں بیٹھا ہو اس کے پاس آنے والے شہریوں کو رشوت لیئے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا ۔سرکاری سیکٹر کے بارے میں یہ عام رائے بن گئی ہے کہ خاص کر رسوخ دار عہدوں پر کرپشن اور اختیارات کا بے جا استعمال کو روک پانے کا کوئی موثر نظام نہیں ہے۔ابھی تک کرپٹ سرکاری بابوﺅں کے خلاف زیادہ تر معاملاتی شعبہ ذاتی کارروائی ہوتی ہے اور ان کی نوکری کم و بیش بنی رہتی ہے ۔برسوں تک مقدمہ اور کارروائی چلتی رہتی ہے جس سے سرکارکو وقت اور پیسے کی بربادی دونوں ہی برداشت کرنی پڑتی ہے جبراََ ریٹائر کئے گئے افسران کی بچ ہوئی نوکری کی تنخواہ اور سہولیات کے فائدے بھی نہیں ملیں گے ۔اس سے بھی بڑ ی بات یہ ہے کہ اپنی داغ دار ساکھ سے وہ زندگی بھر باہر نہیں نکل پائیں گے ۔یہ سچ ہے کہ سچائی کے راستہ پر چلنا مشکل ہے لیکن دیش کے لئے یہ کرنا ضروری ہے ۔تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ہمارے سماج اور سسٹم میں کرپشن اتنی گہر ی جڑیں جما چکا ہے جنہیں جڑ سے دور کرنا تقریباََ نا ممکن ہے ۔اس پر کنٹرول کیا جا نا چاہیے سرکار کے اس قدم کے لئے وزیر اعظم کو بدھائی ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟