نہ حکمراں فریق ،نہ اپوزیشن ،صرف منصفانہ

17ویں لوک سبھا کے آغاز پر سرخیوں میں اور سرپرست کا احساس دلانے والے لال کرشن اڈوانی ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی،ایچ دی دیو گوڑا کی کمی محسوس ہوئی تو کچھ ایسے چہرے پھر نظر آئے جو ایوان میں اپنی دلیلوں سے لوہا منوا لیتے تھے ۔265نئے چہرے ایوان کے تازگی پن کا احساس ضرور کرا رہے ہیں ۔نو تشکیل 17لوک سبھا کے پہلے دن پیر کے روز ایوان میں بھارت کی تہذیب نظر آئی پورے ایوان میں تہوار جیسا ماحول تھا چونکہ مختلف پارٹیوں کے نئے منتخب نمائندے رنگ برنگی لباس ،روایتی شال اور پگڑیاں پہنے ایوان میں حلف لینے کے لئے آئے تھے ۔وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کرتا پاجامہ اور واسکٹ والے اپنے عام لباس میں آئے تھے ۔مرکزی وزیر پرہالاد جوشی ،گری راج سنگھ اور جے کے ریڈی بھگوا لباس پہن کر ایوان میں شامل ہوئے کچھ ایم پی میتھلی پوشاک میں آئے تو کچھ ریاست کی تہذیبی پہچان مانا جانے والا آسامی گمچھا اوڑھ رکھے تھے ۔وائی ایس آر کانگریس کے ممبران نے شمالی لباس پہنا ہوا تھا ۔جس پر پارٹی کے چیف وائی ایس آر جگن ریڈی کی تصویر تھی ۔ایوان کے نیتا ہونے کے سبب سب سے پہلے وزیر اعظم نریندر مودی نے حلف لیا ۔اس کے بعد وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں صاف کر دیا کہ لوک سبھا کے اندر حکمراں فریق نمبروں کی طاقت میں بھلے ہی زیادہ ہوں لیکن اپوزیشن کی آواز کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا ۔وزیر اعظم نے اپوزیشن کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ ان کا کہنا تھا عوامی جمہوریت میں حکمراں فریق ،اپوزیشن سے زیادہ اہمیت منصفانہ کی ہوتی ہے ۔سرکار اپوزیشن کے ساتھ منصفانہ طریقہ سے کام کرئے گی ۔اپوزیشن نمبروں کی فکر نہ کریں ۔آپ کا ایک ایک لفظ قیمتی ہے ۔نمبروں کی تعداد بھول کر اپوزیشن ممبران دیش کی سیوا میں سرکار کا تعاون کریں ۔وزیر اعظم نے امید جتائی کہ اپوزیشن بے باکی سے بولیں گے ۔اور ایوان کی کارروائی میں ساجھے داری کریں گے ۔انہوںنے ممبران سے کہا کہ وہ لوگ مثبت رویوں کے ساتھ عوام کی آواز اٹھانے کا کام کرتے رہیں گے ۔نئے ساتھی جب جڑتے ہیں تو نئی امنگ،نیا جوش ،کے ساتھ نئے سپنے جڑتے ہیں۔بھارت کی جمہوریت کی خصوصیت اور طاقت کا تجربہ ہم ہر چناﺅ میں کرتے ہیں اس بار خاص یہ رہا کہ آزادی کے بعد سب سے زیادہ خواتین نمائندوں کو چنا گیا ۔اور سب سے زیادہ پولنگ ہوئی کئی دہائیوں کے بعد ایک حکومت کو مکمل اکثریت کے ساتھ اور پہلے سے زیادہ سیٹوں کے ساتھ عوام نے خدمت کا موقعہ ہمیں دیا ہے ۔مودی نے کہا کہ جب ہم پارلیمنٹ میں آتے ہیں تو ہمیں حکمراں اور اپوزیشن کو بھول جانا چاہیے ۔اور ہمیں منصفانہ جذبے سے اشوز کے بارے میں سوچنا چاہیے ۔دیش کے وسیع مفاد میں کام کرنا چاہیے ۔ہم وزیر اعظم کی تقریر کا خیر مقدم کرتے ہیں چناﺅ مہم کے دوران جو تلخی پیدا ہوئی تھی اس پر مرہم لگانے کی وزیر اعظم کوشش کر رہے ہیں اور یہ سندیش دے رہے ہیں کہ چناﺅ میں جو کچھ ہوا اسے بھول جاﺅ اور مل کر عوام کے مسائل کو اُٹھاﺅ ۔اس مرتبہ بڑی تعداد میں نئے نوجوان چہرے آئے ہیں جو اپنے ساتھ نئی امیدیں نیا جوش لائے دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں وزیر اعظم اور حکمراں پارٹی اپوزیشن کو کتنی عزت دیتی ہے ۔اور تلخی پہلے کی طرح جذبے سے کام نہیں کرتی ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟