ہر گھنٹے ایک ماں کی گود ہو رہی ہے سونی

بہار کے مظفر پور وا ٓس پاس کے اضلاع میں وبا کی شکل اختیار کر چکے دماغی بخار چمکی کہا جا رہا ہے اس سے تقریبا سو بچوں کی موت ہو چکی ہے ۔بلکہ طبی اور اس سے جڑی بنیادی سہولت کے تئیں سرکار کی ترجیح پر بھی ایک انتہائی تکلیف دہ سوال ہے ۔بہار میں بچھلے دس دنوں سے پھیلے اس بخار چمکی کی وجہ سے بچوں کی موت کا سلسہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔اموات کی یہ تعداد تو ان بچوں کی ہے جواسپتالوں میں بھرتی تھے ۔اور ناکافی علاج کے سبب جنہوںنے دم توڑ دیا ۔تشویش کی بات تو یہ ہے کہ بچھلے د س دنوں سے ڈاکٹر یہ بھی پتہ نہیں لگا پائے کہ آخر اس بخار کی وجہ کیا ہے ؟ریاست کے قریب بارہ ضلع اس بخار کی ذر میں ہیں ۔مظفر پور کے اسپتالوں میں ڈھائی سو سے زیادہ بچے بھرتی ہیں ۔اس کے علاوہ زیادہ تر متاتر بچے دیہاتوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔اور یہ موت کا سلسلہ کئی دن سے جاری ہے ۔لیکن بہار سرکار دیر سے حرکت میں آئی اور ریاست کے وزیر صحت جمعہ کے روز پہلی مرتبہ مظفر پور پہنچے یہ بہار سرکار کی بے حسی کو بتانے کے لئے کافی ہے ۔جب مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن اوربہار کے وزیر صحت اشونی چوبے شری کرشن میڈیکل کالج اسپتال میں پہنچے تو ان کے سامنے ہی دو بچوں کی موت ہو گئی ۔اور بچوں کی موت سے خفا لوگوں نے ان وزراءکے سامنے ہی ہنگامہ کر دیا ۔ان کا کہنا تھاکہ ہر روز کوئی نہ کوئی وزیر آتا ہے لیکن علاج کے نام پر کوئی سہولت نہیں مل رہی ہے ۔پچھلے کئی برسوں سے اسی موسم میں نارتھ بہار میں دماغی بخار کا زور دیکھا جا رہا ہے ۔اس کے باوجود نہ تو اس کے پھیلنے کے اسباب کا ٹھیک سے پتہ نہیں چل سکا ۔اور نہ ہی اس سے نمٹنے کے لئے بنیادی سہولیات بڑھائی گئیں ہیں ۔کچھ ماہرین دماغی بخار کا سبب مظفر پور اور اس کے آس پاس کے کارخانوں میں زہریلی کمیکل کو بتا رہے ہیں۔ جس وجہ سے لیچی پر اثر ہو رہا ہے جسے کھانے والے خالی پیٹ لیچی کھانے والے غریب فاقہ کش بچے اس کا شکار بن رہے ہیں ۔جب محکمہ صحت کے حکام کے مطابق چلچلاتی گرمی اور نمی و بارش کے نہ ہونے سے اچانک شگر کی کمی سے بچوں کی موت ہو رہی ہے ۔مظفر پور کے زیادہ تر اسپتالوں میں آئی سی یو و دواﺅں و بینٹی لیٹر جیسی ضروری سہولیات کی کمی ہے یہی نہیں درکار تعداد میں نہ تو ڈاکٹر دستیاب ہیں اور نہ ہی نرسنیں و پیرا میڈیکل اسٹاف مرکزی سرکار کی ہدایت کے باوجود پچھلے پانچ سالوں میں سو بیڈ کا ایک اسپیشل اے ای ایس وارڈ بن پایا جس وجہ سے چار الگ الگ وارڈوں میں بچوں کا علاج چل رہا ہے ۔سوال یہ ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں اتنی سہولت کی کمی کیوں ہے جہاں ضرورت کے مطابق بستر ہے نہ آئی سی یو نہ اسپیشلٹ ڈاکٹر اور نہ دوسرا اسٹاف بہار میں 1977میں پہلی بار اس بیماری کا پتہ چلا تب سے لے کر اب تک ایک لاکھ سے زیادہ بچوں کی جان جا چکی ہے سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟