دہلی میں راشٹر واد اور روزگار کے اشو پر ووٹ پڑا

دہلی میں اتوار کو ووٹروں نے دوپہر میں جوش دکھایا صبح شام رہے سست ویسے تو دہلی میں دن بھر ووٹ برسے لیکن 2014کے مقابلے (65.09)سے 2019میں کم (6027)ووٹ ہی پڑ سکے شروع کے دو گھنٹے میں دہلی کے آٹھ فیصدی ووٹروں نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا اور دن چڑھتے چڑھتے اضافہ ہوا اور آخری گھنٹے میں پولنگ میں چھ فیصدی کا اضافہ ہوا ۔رمضان کا اثر صبح میں دکھائی دیا کیونکہ مسلم اکثریتی علاقوں میں اصلی رونق 11بجے کے بعد ہی دیکھنے کو ملی چاندنی چوک ،مٹیا محل،بلی ماران میں صبح کی ووٹنگ میں رمضان کا اثر نظر آیا ۔جبکہ دہلی کے عالی شان علاقوں میں ملا جلا اثر رہا ۔شالی مار باغ،ماڈل ٹاﺅن،اشوک وہار سمیت کئی جگہ پولنگ مرکزوں میں اچھے ووٹ پڑے ساﺅتھ دہلی میں ووٹ ڈالنے کے لئے گھروں سے لوک کم نکلے زیادہ تر علاقوں میں صبح میں دس بجے تک 15سے بیس فیصدی ووٹنگ ہوئی گاﺅں دیہات اور بستیوں میں دوپہر تک چہل پہل نظر آئی راجدھانی میں چناﺅ میں بجلی پانی ،تعلیم،مہنگائی،جیسے اشوز پر راشٹر واد اور روزگار کا اشو ہاﺅی رہا ۔دہلی میں ہر ایک طبقہ اور عمر کے لوگوںنے راشٹر واد اور روزگار کو دھیان میں رکھ کر اپنے پسند کے امیدوار کے حق میں ووٹ دیا ۔مغربی دہلی کے لوک سبھا حلقے پلہ بختاورپور میں پولنگ کے بعد ایک پچاس سالہ ووٹر نے کہا کہ اس نے قومیت کو لے کر ووٹ دیا ان کے سامنے صرف دیش کی سلامتی کا خیال تھا وہیں ساﺅتھ دہلی کی ایک ووٹر نے ووٹ ڈالنے کے بعد کہا کہ ہمیں یہ سرکار ہٹانی ہے ہر قیمت پر ایسے ہی چاندنی چوک کے علاقہ دریا گنج میں ووٹ ڈالنے کے بعد ایک شخص نے بتایا کہ روزگار کو ذہن میں رکھ کر ووٹ ڈالا ہے آج چاروں طرف بے روزگاری ہے ریہڑی پٹری والوں کو بھگایا جا رہا ہے آخر اس چھوٹے کارباری جائیں تو کہاں جائیں؟انہوںنے ایسی سرکار بنانے کے لئے ووٹ ڈالا ہے جو سب کو روزگار کے مواقع مہیا کر اسکے یہ ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے ۔ایک ووٹر کا کہنا تھا کہ دیش کی ترقی کے لئے اس نے ووٹ دیا ہے اور دیش کو محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ دیش کی ترقی کا بھی خیال رکھیں کل ملا کر لگتا ہے دہلی کا ووٹر گھر سے من بنا کر آیا تھا کہ اس نے کس کو ووٹ دینا ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟