مشکل ہے ڈگر ،بھاجپا کی جموں-اودھم پور چناﺅ میں

ٓآتنکی حملے کی دہشت جھیل رہے جموں کشمیر کی دو سیٹوں پر دوسرے مرحلے میں اٹھارہ اپریل کو ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ جموں و بارہ مولہ کے دو پارلیمانی حلقوں میں قسمت آزما رہے 33امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ 33لاکھ ووٹر کریں گے ۔ جموں پارلیمانی حلقے میں 24امیدوار میدان میں ہیں ۔جبکہ بارہ مولہ میں 9امیدوار سیٹ کے لئے چناﺅ لڑ رہے ہیں ۔ جموں پارلیمانی حلقہ 4ضلعوں میں 20اسمبلی علاقوں میں پھیلا ہو اہے جن میں جموں ،سانبا،پونچھ اور راجوری شامل ہیں ۔ پارلیمانی سیٹ پر کل 2047299ووٹ ہیں۔جموں پونچھ اور اودھم پور کٹھوا کے پارلیمانی حلقوں میں بھاجپا کے لئے اپنا گڑھ بچائے رکھنے چنوتی پیدا ہو گئی ہے ۔ایسا تین اپوزیشن پارٹیوں کے ذریعہ درپردہ سمجھوتے کے سبب ہے ۔ایسے میں بھاجپا امیدواروں کو صرف مودی کے نام کا ہی سہارا ہے ۔بھاجپا نے دونوں ہی لوک سبھا سیٹوں پر اپنے پرانے چہروں کو ہی میدان میں اتارا ہے جموں سے موجودہ ایم پی جگل کشور شرما اور اودھم پور سے وزیر و ایم پی جتیندر سنگھ قسمت آزما رہے ہیں ۔حالانکہ دونوں ہی پارلیمانی حلقوں میں اپوزیشن پارٹیوں کے امیدوار دم خم میں تو نہیں ہیں ۔تشویش کی بات یہ ہے کہ کانگریس امیدوار کو اگر براہ راست طور پر نیشنل کانفرنس اور غیر بالواسطہ طور پر پی ڈی پی کی بھی حمایت حاصل ہے ۔جموں سے کانگریس کی طرف سے رمن بھلہ کو اتارا گیا ہے ۔وہ ریاستی حکومت میں ترقی کی لو کے نام سے جانے جاتے رہے ہیں ۔جبکہ اودھم پور سے کانگریس امیدوار ڈکٹر کرن سنگھ کے صاحبزادے وکرم اتےو راج گھرانے سے ہیں ان کے والد ڈاکٹر کرن سنگھ اس پارلیمانی حلقہ سے چار بار کامیاب ہو چکے ہیں واضح رہے کہ پچھلے چناﺅ میں بھی دونوں پارلیمانی حلقوں سے نیشنل کانفرنس بغیر سمجھوتے سے ان لوک سبھا حلقوں میں امیدوار میدان میں نہیں اتارے تھے لیکن اس مرتبہ دونوں پارٹیوں میں باقاعدہ سمجھوتہ ہوا ہے اور پی ڈی پی نے فرقہ وارانہ ووٹوں کو بٹنے سے روکنے کے خاطر پارلیمانی حلقوں میں اپنے امیدوار نہ اتارنے کا فیصلہ کیا ہے اپوزیشن کے ساجھا امیدوار کے علاوہ بھاجپا کو اپنے ہی باغی اور دبنگ لیڈر چودہر لال سنگھ سے بھی نمٹنا ہوگا ۔بھاجپا کو چھوڑ کر ڈوگرا لوگوں کے مفادات کی حفاظت کے لئے بنائی گئی تنظیم ڈوگر ا سوابھیان کے بینر تلے دونوں ہی پارلیمانی حلقوں سے قسمت آزما رہے ہیں ۔بھاجپا کو پی ڈی پی سرکار بنانے کا بھی خمیازہ بھگتنا پڑئے گا ۔جموں حلقہ کونظر انداز کیا گیا اور اتنا وکاس نہیں ہوا جس کی بھاجپا سے امید تھی ۔پچھلے پانچ سالوں میں جموں حلقہ میں دہشتگردی بھی بڑھی ہے اور آتنکی حملے بھی زیادہ ہوئے ہیں ۔جموں علاقہ کے یہ چناﺅ قومی اہمیت رکھتے ہیں ہندو اکثریتی علاقہ میں اگر بھاجپا پچھڑ جاتی ہے تو وادی میں اس کا صفایا ہونا طے ہے بھاجپا قیادت کو محاسبہ کرنا ہوگا کہ جب ان کی حکومت بنی تھی تو انہوںنے جموں علاقہ کو کیوں نظر انداز کیا ؟اہم مقابلہ بھاجپا بنام اپوزیشن ساجھا امیدوار سے درمیان ہوگا کوئی بھی ہارے جیتے آخر جیت تو ہندوستانی جمہوریت کی ہی ہوگی ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟