آدیواسیوں پر لٹکی بے دخل ہونے کے حکم کی تلوار

سپریم کورٹ کے اس حکم سے دیش میں قریب 12لاکھ آدیواسیوں اور ون واسیوں کے اپنے گھر وں سے بے دخل ہونا پڑ سکتا ہے ۔دراصل عدالت عظمی نے سولھ ریاستوں کے قریب 11.8لاکھ آدیواسیوں کے زمین پر قبضے کے دعووں کو مستر د کرتے ہوئے حکومتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے قوانین کے مطابق ان سے اپنی زمینیں خالی کرائیں ۔ جسٹس ارن مشرا ،نوین سنہا ،اور اندرا بنرجی کی بنچ نے سولھ ریاستوں کے چیف سیکر یٹر یو ں کو حکم دیا ہے کہ وہ بارہ جولائی سے پہلے حلف نامہ داخل کر بتائیں طے میعاد میں زمین خالی کیوں نہیں کرائی گئی ؟دراصل بڑی عدالت نے ان آدیواسیوں اور جنگلی باشندوں کے دعوں کو اس لئے بھی خارج کیا کہ وہ لاکھوں ہیکٹیر زمین پر ناجائز قبضہ کئیے ہوئیے ہیں ۔یہ فیصلہ ان کے لئیے جھٹکا تو ہے ہی ،یہ محروموں کے حق کی لڑائی کے معاملے میں ہمارے غیر ہمدردانہ ریاکارڈ کی ایک اور مثال بھی ہے قریب 80سال بعد 2006میں آدیواسیوں اور ون واسیوں کو جنگلاتی حق ایکٹ کے طور پر ایک ایسا قانون ملا تھا جو انہیں جنگلوں میں رہنے کا حق فراہم کرتا تھا ۔قانون کو فطری ہی طور پر ائین کی پانچویں اور چھٹے سیکشن کی توسیع مانا گیا تھا ۔جس میں آدیواسیوں کے مفاد محفوظ ہیں ۔برادری معاملوں کی وزارت کے ذریہ اکٹھے اعداد شمار کے مطابق 30نومبر2018تک دیش بھر میں 19.39لاکھ دعوں کو خارج کر دیا گیا تھا ۔اس طرح سپریم کورٹ کے حکم کے بعد قریب 20لاکھ آدیواسی ون واسیوں کو جنگل کی زمین سے بے دخل کیا جا سکتا ہے۔آخر ایسا کیا ہو گیا ہے کہ سپریم کورٹ کو لاکھوں کنبوں کو جنگلاتی زمین سے ہٹانے کا سخت حکم پاس کرنا پڑا جس پر عمل ہوا تو بڑی تعداد میں لوگوں کو اس زمین سے باہر نکلنا ہوگا ؟دراصل اس قانون کے پاس ہونے کے ساتھ ہی ان عناصر نے اس کی مخالفت شروع کر دی تھی جن کے مفاد ات اس سے متاثر ہونے والے تھے ۔ضروری تو یہ ہے کہ جنگلوں میں جو مافیاﺅں کا قبضہ ہے انہیں ہٹایا جائے اور محروم خاندانوں کو بسایا جائے ۔یہ غلط نظریہ ہے جنگلاتی زمین میں رہنے والے جنگل کو تباہ تو کرتے ہی ہیں بلکہ دیش دنیا کا تجربہ بتاتا ہے کہ وہ وہی جنگل کی حفاظت کرتے ہیں ہمارے نکسلی مسئلے کی ایک وجہ جنگلوں میں بسے لوگوں کی مسائل کے بارے میں نہ آشنائی ہے ۔مرکزی سرکار کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومتوں کے ذریعہ جنگلاتی زمینوں سے نکلنے والے لوگوں کی اعداد شمار ملنے کے بعد ہی وہ قدم اُٹھایں گی ۔اسے جلد ہی اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے کیونکہ اس معاملے میں لا پرواہی سے ان آدیواسیوں اور ون واسیوں کے وسیع پیمانے پر بے گھر ہونے کا سامنا کر نا پڑئے گا ۔ان کی دوبارہ بساست کے مسئلے پر ہمار ا ریکارڈ پہلے سے ہی خراب ہے مرکزی وزیر جنگلات و ماحولیات ڈاکٹر ہرش وردھن نے کہا کہ دیش بھر میں دس لاکھ سے زیادہ آدیواسیوں جنگلی لوگوں کو زمین سے بے دخل کرنے کے اشو کو ہمددردانہ انداز میں دیکھا جا نا چاہیے ۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف کانگریس صدر راہل گاندھی نے چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل کو نظر ثانی عرضی دائر کرنے کو کہا ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟