دہشتگردی ،کرفیو نے تباہ کی جموں و کشمیر کی معیشت

دہشتگردی نے جہاں پورے دیش کو متاثر کیا ہے وہیں جموں وکشمیر کی معیشت کو تو بالکل تباہ کر دیا ہے پچھلے تیس برسوں میں دہشتگردانہ سرگرمیوں کے چلتے ریاست کو 4.55لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے ۔مرکزی سرکار دیش کی جی ڈی پی کا دس فیصدی حصہ یہاں خرچ کرتی ہے ،باوجود اس کے جموں و کشمیر میں دہشتگردی اور بے روزگاری دونوں ہی بڑھی ہیں ایسا تب ہوا ہے جب پچھلے 18 برسوں میں جموں و کشمیر میں دہشتگردی سے نمٹنے کے لئے مرکز نے مدد رقم میں 55 فیصد کا اضافہ کیا ہے ۔جموں و کشمیر ہی ایک ایسی اکلوتی ریاست ہے جہاں اوسطا 80 فیصد سے بھی زیادہ رگرانٹ مرکز کی طرف سے کسی ریاست کو اس کے ڈولپمینٹ کے لئے ملی ہے باقی ریاستوں سے تیس فیصدی زیادہ ہے فی شخص کے حساب سے بات کریں تو جموں و کشمیر کے لوگوں کو سرکار باقی ریاستوں کے مقابلے میں 8گنا زیادہ رقم دیتی ہے ۔جموں و کشمیر میں میڈیا رپورٹ کے مطابق پانچ لاکھ سے زیادہ سیکورٹی فورس تعینات ہے کچھ ڈیفنس ماہرین کا دعوی ہے کہ اتنی فوج تعینات نہیں ہے ۔ریاست میں فوجیوں کی تعداد2,10,800بتائی جاتی ہے ۔تیس سال کے دہشتگر دی نے جموں و کشمیر کی معیشت الگ الگ سے تباہ کر دی ہے ۔1988میں 7لاکھ سے زائد لوگ بے روزگار ہوئے ہیں۔سیاحت کو تو ایک طرح سے تباہ کر دیا ہے ۔1988میں سات لاکھ سیاح جموں وکشمیر آئے تھے 1989میں تشدد کا دور شروع ہوا تو یہ تعداد 6,287رہ گئی ۔بیچ میں جب حالات تھوڑے بہتر ہوئے تو سیاحوں کی تعداد 27,356تھی۔2012میں ریکارڈ 13 لاکھ سیاح ریاست میں آئے ۔30سال میں کرفیو ،مظاہرے اور ہڑتال سے کشمیر میں 1796دن بند رہا ۔ 1991میں سب سے زیادہ 207دن 2016میں130دن بند رہا ۔ان بند سے کشمیر کو 250کروڑ روپئے کے محصول کا نقصان ہوا ۔2016میں 51دن کے مکمل بند سے 10500کروڑ روپئے کا نقصان اُٹھانا پڑا ۔جموں وکشمیر کی معیشت میں اہم کردار نبھانے والے ٹورزم سیکٹر کی بھی حالت خراب ہو چکی ہے ۔جہاں 1989میں دہشتگردی کے دور سے پہلے ریاست کی جی ڈی پی میں ٹورزم سیکٹر کا دس فیصدی سے زیادہ اشتراک ہوتا تھا پچھلے تیس برسوں میں یہ بڑھنے کی جگہ اوسطا چھ فیصدی پر آگیا ۔اس کی وجہ دہشتگردی کے چلتے دیسی و غیر ملکی دونوں ہی سیاحوں کا وادی سے منھ موڑ لینا ہے ۔جنوری 2019میں جموں وکشمیر میں بے روزگاری شرح 21فیصدی رہی جو دیش میں ترپورا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے ۔18سے 29عمر کے طبقے میں 24.6بے روزگار ہیں ریاست میں سالانہ2.74فیصد ی لاکھ آبادی بڑھ رہی ہے ۔2007میں یہ تعداد 1.68فی صد تھی جموں میں نئے بجنس شروع نہیں ہو پا رہے ہیں ۔جموں و کشمیر میں صرف 86بڑی اور درمیانے درجے کی صنعتیں ہیں اس میں 19314 لوگوں کو ہی روزگار ملا ہوا ہے ۔وادی میں 30120چھوٹے صنعتی کاروبار ہیں ۔ان میں 142307لوگوں کو روزگار ملا ہوا ہے لیکن چھوٹے درمیانے اور بڑی صنعتوں کے دھندے نے گزشتہ دس برسوں میں صرف پانچ ہزار نوکریاں ہی دی ہیں ان اعداد شمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دیش اور جموں و کشمیر ریاست کو دہشتگردی کی کتنی قیمت چکانی پڑ رہی ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟