امریکہ میں شٹ ڈاﺅن نے بڑھائی سرکاری ملازمین کی مشکلیں

امریکہ میں فیڈلر سروسز اور سرکاری ملازمین کو تنخواہ نہ ملنے کا مسئلہ نیا سال میں بھی جاری ہے وہیں امریکہ کی دونوں سیاسی پارٹیوں کے درمیان ایک دوسرے پر الزام تراشیوں سے مسلئے کا کوئی ٹھوس حل نہیں نکلتا ہوا نظر آرہا ہے ۔دراصل سارا جھگڑا صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ذریعہ سرکاری رقم میں سے اربوں ڈالر امریکہ -میکسیکو کے درمیان دیوار بنانے کے لئے مانگی گئی ہے ۔اپوزیشن ڈیموکریٹک پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ اس پیسے کا استعمال دیوار بنانے کے لئے نہیں ہونے دیں گے ۔یہ بھی صاف نہیں ہے کہ تالا بندی کب تک جاری رہے گی امریکی صدر کا کہنا ہے کہ جب ڈیموکریٹ -امریکہ-میکسیکو میں سرحد پر دیوار بنانے کے لئے پانچ ارب ڈالر فنڈ دینے کو راضی نہیں ہوتے تھے سرکار کا جزئی شٹ ڈاﺅن جاری رہے گا ۔ڈیموکریٹ ایم پی سرحد پر دیوار بنانے پر خرچ کے خلاف ہیں ان کا کہنا ہے کہ سرکار کو دیوار کے بجائے سرحد کو محفوظ بنانے کے لئے ٹیکنالوجی،برانڈ اور دیگرطریقوں پر خرچ کرنا چاہیے اس شٹ ڈاﺅن کا سرکار کے مختلف ملازمین پر اثر پڑ رہا ہے قریب 380000مرکزی ملازمین کو زبردستی چھٹی پر بھیجا گیا ہے ان میں کمرشیل محکمہ کے 86فیصدی ناسا کے 96فیصدی نیشل پارک سروس وجنگلات سروس 80فیصدی اور ٹریفک محکمہ کے 30فیصد ملازم ہیں ان کے علاوہ 420000ملازمین کو شٹ ڈاﺅن کی معیاد میں بغیر تنخواہ کے کام کرنا ہوگا اس میں انٹرنل سیکورٹی کے 88فیصدی مرکزی محکمہ قانون 41000ملازمین ہیں ۔شٹ داﺅن ختم ہونے کے بعد کانگریس کی اجازت سے ہی اس مدت کی تنخواہ مل سکے گی ان ملازمین کو اس معیاد کی تنخواہ کب اور کیسے ملے گی اس پر تو شش و پنج ہے لیکن اس نے کئی پریشانیاں بھی کھڑی کر دی ہیں دل کی سرجری کے بعد آرام کر رہے مشیل چیپل کی بیوی انٹرنل سیکورٹی محکمہ میں کام کرتی ہیں چیپل آپریشن کی وجہ سے کوئی کام فی الحال نہیں کر رہی ہیں بیوی کی تنخواہ نہ مل پانے سے ان کے گھر میں مشکل کھڑی ہو گئی ہے ان کے سامنے کرائے کے ساتھ ہی کار کی قسط و میڈیکل بل ادا کرنے تک کی مشکل ہے حالانکہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ دعوی کر رہے ہیں کہ کئی مرکزی ملازمین دیوار چاہتے ہیں اور جب تک اس کے لئے کانگریس فنڈ نہیں دیتی و شٹ ڈاﺅن کے لئے تیار ہیں اس کے برعکس بڑی ملازمین یونینون نے ٹرمپ کے اس دعوی کی تردید کی ہے اس دوران شٹ ڈاﺅن کی وجہ سے دو بچوں کے مرنے سے اور تنازع کھڑا ہو گیا ہے ٹرمپ کا دعوی ہے کہ یہ موتیں پوری طرح سے ڈیموکریٹس اور ان کی خراب پالسیوں کا نتیجہ ہے جس نے لوگوں کو لمبی دوری طے کرنے اور یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ وہ ناجائز طریقہ سے ہمارے دیش میں داخل ہو سکتے ہیں امید کی جا تی ہے کہ جلد اس تعطل کا سلسلہ ختم ہوگا اور معاملے کا کوئی راستہ نکلے گا ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟