خون سے لت پت بچے مانگ رہے تھے مدد

بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے دیش کے اسکولی بچوں کی پڑھائی لکھائی خطرے کے درمیان ہورہی ہے۔ جس دن اترپردیش کے کرشی نگر میں اسکولی بچوں کو لے جایا جارہا تھا وہاں گاڑی بے پہریدار ریلوے کراسنگ پر ایک ٹرین کی زد میں آگئی اور 13 بچوں کی موت ہوگئی اس دن دہلی کے کیشو پور علاقہ میں بھی اسی سے ملتا جلتا ایک حادثہ ہوا۔ فرق یہ تھا کہ بچوں کو لے جارہی گاڑی کی ٹکر ایک ٹینکر سے ہوگئی جس میں ایک سال کی بچی کی جان چلی گئی اور 17 بچے زخمی ہوگئے۔ ڈرائیور کا کان میں ایئرفون لگائے رکھنا اور ریڈ لائٹ پر غلط سائڈ سے یو ٹرن کرنا حادثے کی وجہ بن گیا۔ کیشو پورکے سینٹرل اسکول اور سروودیا کنیا ودیالیہ کے 18 بچوں کو ڈرائیور وجے جمعرات کی صبح اسکول لے جارہا تھا پرائیویٹ وین کنہیا نگر میٹرو اسٹیشن کے نزدیک پہنچی تبھی تیز رفتارسے آئے دودھ کے ٹینکر نے اسے ٹکر ماردی۔ حادثہ اتنا خوفناک تھا کہ وین نے تین بار پلٹی کھائی اور ٹکر کے بعد ایک زور دار آواز ہوئی اور کچھ دیر بعد بچوں کے چیخ و پکار کی آوازیں آنے لگیں۔ لوگوں کی بھیڑ نے دبے ہوئے بچوں کو نکالا اور بعد میں کچھ لوگوں نے وین کو سیدھا کیا۔ ایک ایک کرکے بچوں کو نکال کر سڑک پر بٹھا دیا۔ آٹو ڈرائیور اقبال فوراً اپنے آٹو سے کچھ بچوں کو اسپتال لے گئے اور دیگر بچوں کو بھی الگ الگ گاڑی میں سوار کر اسپتال پہنچایا گیا۔ چشم دید گواہوں کے مطابق خون سے لت پت بچے تڑپ رہے تھے لیکن بھیڑ میں کچھ لوگ موبائل سے ویڈیو بنانے میں لگے تھے۔ بچوں کو لے جا رہی گاڑی 16 سال پرانی تھی اور پہلے ہی خستہ حالت میں تھی اس کے باوجود اس میں 18 بچوں کو بھر کر لے جایا جارہا تھا۔ اسکولی بچوں کو لے جانے والی پرائیویٹ وین کے ڈرائیور عام طور پر ٹریفک قواعد کی تعمیل نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ ایسی گاڑی حادثوں کا شکار ہوتی ہے۔ سال2016 میں باہری دہلی کے ہی براڑی علاقہ میں اسکولی بچوں کو لے جار ہی وین ڈرائیور کے ذریعے تیز رفتار میں موڑنے کے سبب گہرے نالے میں جا گری۔ یہ غنیمت رہا کے بچوں کی چیخ و پکار سن کر مقامی لوگوں نے سبھی کو محفوظ نکال لیا۔ اسکولی بچوں کو لے جانے والی پرائیویٹ وین صحیح بھی ہے یہ ذمہ داری اسکول انتظامیہ کی بنتی ہے۔ اس میں کتنے بچے جانے ہیں یہ بھی انہیں طے کرنا ہے۔ ماں باپ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ یہ دیکھیں کہ جس وین میں بچے جارہے ہیں وہ کسی طرح سے فٹ ہے یا نہیں؟ اس میں کتنے بچے جا سکتے ہیں؟ اور پرائیویٹ وین ڈرائیور ٹریفک قواعد کی تعمیل کرے یہ ذمہ داری ٹریفک پولیس کی بنتی ہے۔ ٹریفک پولیس کو چاہئے کہ وہ وقتاً فوقتاً اسکولی وین کو چیک کرے اور بچوں کے ماں باپ کو بھی بیدار کرے۔ بہرحال حادثہ سے انتہائی دکھ ہوا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟