موت کے یہ ریلوے پھاٹک

صاف ستھری دھلی یونیفارم پہن کر پیٹھ پر بستہ اور ہاتھ میں پانی کی بوتل لیکر اپنے گھروں سے اسکول کے لئے نکلے یہ نونیہال کچھ ہی دیر میں خون سے لت پت بے جان پڑے تھے۔ بچوں کے ماں باپ پر تو دکھ کا پہاڑ ہی ٹوٹ گیا۔ موقعہ پر پہنچے ہر شخص کی آنکھیں نم تھیں۔ 13 اسکولی بچے اسکول کے بجائے موت کے دروازے پر پہنچ گئے جب ایک پسنجر ٹرین اترپردیش کے ہدرواہ میں بغیر پھاٹک والی کراسنگ پر ان بچوں کی اسکول وین کو ٹکر ماری اور معصوموں کی زندگی شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگئی۔ڈیوائن مشن اسکول میں پڑھنے والے ان بچوں کے اسکول بیگ ،کاپی،کتابیں، پانی کی بوتلیں اور ٹفن ان کے مردہ جسم کے آس پاس بکھرے پڑے تھے۔ ان کی سفید یونیفارم انہی کے خون سے لال ہوچکی تھی۔ صبح قریب 7:15 کا وقت تھا جب یہ حادثہ ہوا۔ اس ٹکر میں ہوئی ان بچوں کی موت مجرمانہ لاپروائی کے ساتھ ہی ادارہ جاتی ناکامی کا بھی معاملہ ہے۔ وین کے ڈرائیور نے کان میں ایئرفون لگا رکھا تھاوہ وہاں موجود چوکیدار کی وارننگ کو نہیں سن پایا۔ اس کے باوجود یہ سچ ہے کہ ایسے حادثوں کے لئے بنا گیٹ مین کے ریلوے پھاٹک کہیں زیادہ ذمہ دار ہے۔ دو سال پہلے جولائی 2016 میں اترپردیش کے ہی بھدوئی میں ایسی ہی ایک اسکول وین بین گیٹ مین کے ریلوے پھاٹک پر ایک ٹرین سے ٹکرا گئی تھی جس میں کئی بچوں کی موت ہوگئی تھی اس وقت بھی یہی بات سامنے آئی تھی کہ اس گاڑی کے ڈرائیور نے بھی گیٹ پہریدار کی وارننگ پر کوئی توجہ نہیں دی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے ریلوے نے جو گیٹ متر تعینات کرنے کا انتظام کیا ہے وہ کارگر ثابت نہیں ہورہے ہیں۔ یہ بھیانک حادثہ بتاتا ہے کہ ریلوے انتظامیہ اور ریاستی انتظامیہ کس قدر اپنی ذمہ داریوں سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔ وزیر ریل نے پچھلے دسمبر میں راجیہ سبھا میں بتایا تھا کہ اگلے سال یعنی 2018 میں گنیش چترتھی تک سبھی بغیر گیٹ متر کے پھاٹکوں کو ختم کردیا جائے گا لیکن ان بغیر گیٹ متر ریلوے پھاٹکوں پر آئے دن اس طرح کے حادثے ہورہے ہیں اس سے ریلوے انتظامیہ کے دعوے اور وعدوں پر سوالیہ نشان اٹھتا ہے۔ سال2012ء میں انل کاکودر کمیٹی نے پانچ سال کے اندر سبھی بغیر گیٹ متر پھاٹوں کو ہٹانے کو کہا تھا۔ دوسری طرف ریلوے کا کہنا ہے وہاں تعینات کراسنگ متر نے اسکول وین کو روکنے کو کہا لیکن اس کا ڈرائیور ایئرفون پر گانا سن رہا تھا اس لئے وین کو نہیں روکا اگر واقعی ایسا ہے تو دیش بھر کے اسکولوں کے لئے یہ حادثہ ایک سبق ہونا چاہئے کہ وہ ڈرائیوروں کو اس کے لئے سخت احکامات دیں کہ گاڑی چلاتے وقت ایئر فون کا استعمال نہ کریں۔ آخر کار ایک لاپرواہی نے اتنے نونیہالوں کو حادثے میں چھین لیا۔ حالانکہ سچائی کا پتہ تو جانچ رپورٹ کے بعد ہی چلے گا۔ ایسے حادثوں سے نمٹنے کے لئے انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) نے سیٹیلائٹ پر مبنی چپ سسٹم بنایا ہے جو ان ریلوے پھاٹکوں پر لوگوں کو آگاہ کرے گا۔ پھاٹک سے قریب 500 میٹر پہلے سائرن بجنے لگے گا اور پھاٹک کے قریب لوگ چوکس ہوجائیں گے لیکن ریلوے اسے کب استعمال کرے گا یہ کوئی نہیں جانتا۔ اس واقعہ نے اسکول و سکیورٹی پیمانوں کو ٹھینگا دکھا دیا ہے ورنہ اسکول کیا ایسے لاپرواہ ڈرائیو کو رکھتا جو گیٹ متر کے منع کرنے کے بعد بھی پھاٹک پارکرنے لگا اور حادثے کو دعوت دے بیٹھا۔ زیادہ تر چھوٹے شہروں اور قصبوں میں جہاں ریلوے لائنیں گزرتی ہیں وہاں سکیورٹی کے لحاظ سے کوئی انتظام نہیں ہے۔ ریلوے کو جدید بنانے کی بات تو ہورہی ہے۔ بلٹ ٹرین چلانے کی بات ہورہی ہے۔ مسافروں کی سہولتوں کو ٹیکنالوجی سے لیس بھی کیا جارہا ہے لیکن موجودہ ریلوے نیٹ ورک کی سکیورٹی پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ اگر اتنے بڑے حادثہ سے بھی ریلوے انتظامیہ کی نیند نہیں ٹوٹتی تو بھگوان ہی مسافروں کا مالک ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟