نارتھ۔ ساؤتھ کوریا میں بات چیت کا خیر مقدم

ساؤتھ کوریا کے صدر نے بدھوار کو کہا کہ مناسب حالات میں نارتھ کوریائی لیڈر کم جونگ ان سے ملنے کے لئے تیار ہیں۔ قریب دو سال بعد دونوں ملکوں میں پہلی سرکاری میٹنگ کا ساری دنیا نے خیر مقدم کیا ہے۔ پچھلے کچھ مہینوں میں نارتھ کوریا اور امریکہ کے درمیان کشیدگی اس قدر بڑھ گئی تھی کہ ڈر لگنے لگا تھا کہ کہیں تیسری عالمی جنگ نہ چھڑ جائے۔ لیکن اچانک نارتھ کوریا کے خیالات بدلے اور وہ بات چیت کو تیار ہوگیا۔ دونوں ملکوں کی پہلی سرکاری میٹنگ میں یہ سمجھوتہ کیا گیا جسے ایک مثبت قدم کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ فروری مہینے میں ساؤتھ کوریا میں منعقدہ 2018 ونٹر اولمپک کھیل کے لئے نارتھ کوریا ایک نمائندہ وفد بھی بھیجے گا۔ دونوں ملکوں میں فوجی ہاٹ لائن کو پھر سے بحال کرنے پر بھی رضامندی ہوگئی ہے۔ اسے دو سال پہلے بن کردیا گیا تھا۔ حالانکہ ساؤتھ کوریا کا کہنا ہے کہ نارتھ کوریا کا نیوکلیائی تخفیف اسلحہ پر موقف منفی ہے۔ بات چیت کے بعد دونوں دیشوں نے مشترکہ طور سے ایک بیان جاری کیا۔ اسی بیان میں انہوں نے تصدیق کی ہے کہ دونوں دیش سرحد پر کشیدگی ختم کرنے کو لیکر فوجی بات چیت کیلئے راضی ہوگئے ہیں۔ ساؤتھ کوریا کی نیوز ایجنسی یون ہیپ کے مطابق دونوں دیشوں کے بیانوں میں رشتوں کی بہتری کے لئے ایک اعلی سطحی میٹنگ کی باتیں کہی گئی ہیں۔ ساؤتھ کوریا کی حکومت نے کہا ہے کہ اس نے نارتھ کوریا سے کسی بھی دشمنانہ قدم کو ختم کرنے کے لئے کہا تھا تاکہ کشیدگی کم کی جاسکے۔ ساؤتھ کوریا سرکار کا کہنا ہے کہ نارتھ کوریا رضامند ہوگیا ہے۔ امریکہ کے وزارت خارجہ کے ترجمان ہترناٹ نے منگلوار کو ہوئی کوریائی بات چیت کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا اس کا مقصد اولمپک کھیلوں کو محفوظ رکھنا اور کامیاب انعقاد کرنا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ خود کم کے ساتھ بات چیت کو تیار ہیں۔ انہوں نے کوریائی بات چیت مثبت رہنے کی امید جاتی ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ نارتھ کوریا اور ساؤتھ کوریا کی بات چیت شروع ہونے پر ساری دنیا نے راحت کی سانس لی ہے نہیں تو نارتھ کوریا کے ڈکٹیٹر کم جونگ ان کی آئے دن دھمکیوں سے تو سارا ماحول خطرناک ہورہا تھا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟