ایف ڈی آئی کو لیکر حکومت کا بڑا فیصلہ

عام بجٹ سے ٹھیک پہلے مودی سرکار نے ایف ڈی آئی پالیسی میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے ایئرانڈیا نے غیر ملکی پروازوں کو 49 فیصدی سرمایہ کاری اور سنگل برانڈ ریٹیل اور پروڈکشن سیکٹر میں آٹومیٹک روٹ سے 100 فیصدی سرمایہ لگانے کی اجازت دے دی۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی میں بدھوار کو کیبنٹ کی میٹنگ میں یہ فیصلے لئے گئے جو کافی اہم ترین ہیں۔ اس لئے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سرکار نے جس طرح سے نئی غیرملکی سرمایہ کاری پالیسی بنادی ہے ان فیصلوں پر ایک رائے بننا مشکل ہے۔ فسیکل برانڈ ریٹیل کاروبار اور پروڈکشن سیکٹرمیں آٹومیٹک راستے سے غیر ملکی سرمایہ کاری کو اجازت دینے کا مطلب ہے کہ ان سیکٹر کو غیر ملکی کمپنیوں کے لئے پوری طرح کھول دیا جانا۔ ایئرانڈیا نے غیر ملکی سرمایہ کاری کو لیکر دو مطلب نکالے جارہے ہیں ایک تو یہ کہ سرکار نے اب یہ پوری طرح سے تسلیم کرلیا ہے کہ مسلسل خسارہ میں چل رہی ایئرلائنس میں اور زیادہ پبلک سرمایہ جھونکنا بے سود ہے ، دوسرا یہ کہ غیر ملکی سرمایہ کے باوجود اس کا کنٹرول غیر ملکی ہاتھوں میں نہیں پہنچے گا۔ امید کی جانی چاہئے کہ اسکے بعد ایئرانڈیا پیشہ ور مینجمنٹ کی ہاتھوں میں پہنچ جائے گی اور بازار کی طرح دوسری ایئرلائنس سے بھی مقابلہ کرسکے گی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سرکاری پیسے کی بربادی کے دور سے باہر نکل آئے گی۔ ابھی تک حکومت میں جو پرائیویٹ ایئرلائنس کام کررہی ہیں ان میں 49 فیصدی غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت ہے ۔ مگر ایئرانڈیاکو اس سے الگ رکھا گیا تھا۔ اب اس پر بھی یہی قاعدہ لاگو ہوگا۔ اس اشو کو لیکر دیش میں لمبے عرصے سے بحث چل رہی تھی۔ خود بھاجپا نے پچھلی سرکار کے دوران خوردہ سیکٹر میں صد فیصد غیر ملکی سرمایہ کاری کے خلاف جو موقف اپنایا تھا آج بھی سنگھ پریوار کی تنظیم’سودیشی جاگرن منچ‘ اور ’بھارتیہ مزدور سنگھ‘ اس کے خلاف ہیں۔ لیفٹ پارٹیوں نے بھی اس کی مخالفت کی ہے اور کئی کاروباری انجمنوں نے بھی ۔ایسا نہیں کہ تشویش واجب نہیں ہے۔ خوردہ کاروبار میں ہمارے یہاں کئی کروڑ لوگ لگے ہیں۔ ڈر ہے کہ غیرم لکی دوکانداروں کے آنے سے کہیں ان کا روزگار ختم نہ ہوجائے؟ حالانکہ اس کے حمایتیوں کا کہنا ہے کہ اس سے روزگار گھٹے گا نہیں بڑھے گا۔ کم سے کم ابھی ملٹی برانڈ خوردہ کاروبار میں یہ اجازت نہیں ملی ہے، جو ملی ہے اس میں بھی شرط یہ ہے کہ انہیں بھارت میں اپنی پہلی دوکان کھولنے کے دن سے اگلے پانچ سال تک اپنے کاروبار کے لئے کچے مال کا 30 فیصد حصہ بھارت سے ہی خریدنا ہوگا۔ قیمت کنٹرول کرنے کے لئے غیرملکی اجناس سے بازار کوبڑھانا کوئی آخری قدم نہیں مانا جاتا۔ متوازن ترقی شرح کے لئے دیسی کاروبار کو بڑھاوا دینا بھی ضروری ہوتا ہے۔ پہلے ہی ہمارے یہاں چھوٹے اور منجھولے کاروباری مشکلات سے گزر رہے ہیں۔ غیر ملکی کمپنیوں کے لئے بلا تنازعہ راستہ کھول دینے سے ان کی مشکلیں اور بھی بڑھیں گی۔ ایسے میں غیر ملکی کے ساتھ ساتھ ملکی کمپنیوں کے لئے بھی جگہ بنانے کے لئے باقاعدہ قدم تلاشنے کی امید فطری ہے۔بے روزگاری کا مسئلہ بڑے پیمانے پرتبھی دور ہوسکے گا جب غیر ملکی سرمایہ کاری کے بعد سودیشی صنعت بھی اس کے مقابلے کے لئے ڈٹ کر کھڑی ہوجائے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟