سڑک حادثوں کی بڑھتی تعداد

سرکاری گاڑیوں کی کمی اور پرائیویٹ گاڑیوں کا دباؤ دیش میں زیادہ تر سڑک حادثات کی وجہ ہے۔ شراب پی کر گاڑی چلانا بھی سڑک حادثوں کی بڑی وجہ ہے۔ سستی و آرام دہ بسیں دستیاب نہ ہونے کے سبب زیادہ تر لوگ گاڑی مہنگی ہونے کے باوجود کار یا اسکوٹر خریدنے اور چلانے پر مجبور ہیں۔ سال 2016 میں سڑک حادثات کی رپورٹ سے یہ حقائق سامنے آئے ہیں کہ بھارت میں کاروں اور اسکوٹروں اور ان کے سواروں کی بڑھتی تعداد سیکورٹی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہورہی ہے۔ 2016 میں دیش میں دوپہیہ گاڑیوں کی 73.5 فیصد حصہ داری درج کی گئی، جبکہ کار، جیپ اور ٹیکسیوں کی حصہ داری 13.6 فیصد پائی گئی۔ پچھلے 10 برسوں کے دوران دیش میں گاڑیوں کی فروخت کی تعداد سے پتہ چلتا ہے کہ 2005 سے 2015کے دوران دیش میں کاروں کی فروخت سالانہ 10.7 فیصد جبکہ موٹر سائیکلوں کی فروخت میں 10.1 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ ٹرکوں کی فروخت 8.8فیصد اور بسوں کی فروخت 8.2 فیصد کی شرح سے بڑھی ہے۔ جس رفتار سے گاڑیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، سڑکوں کی لمبائی نہیں بڑھ پا رہی ہے۔ اس سے چلتے حالات مزید سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ 10 برسوں میں جہاں گاڑیوں کی تعداد سالانہ9.8 فیصد کے حساب سے بڑھی ہے وہیں سڑکوں کی لمبائی محض 3.7 فیصد کے حساب سے بڑھ سکی ہے۔ اس سے سڑکوں پر گاڑیوں کی بھیڑ بڑھنے سے حادثات کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ سال2005 میں جہاں فی ایک کلو میٹر سڑک پر 24 گاڑیاں ہوا کرتی تھیں وہیں 2015 میں 38 گاڑیاں ہوگئی ہیں۔ فی ایک ہزار اشخاص کے درمیان گاڑیوں کی تعداد بھی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ سال1980 میں جہاں فی ہزار اشخاص کے درمیان محض 8 گاڑیاں ہوتی تھیں وہیں 2015 میں یہ تعداد بڑھ کر 167 ہو چکی ہے۔
شراب پی کر گاڑی چلانے سے ہونے والی اموات الگ مسئلہ ہے، مرکزی سرکار کی رپورٹ کے مطابق دہلی میں 2 سال پہلے شراب پی کر گاڑی چلاتے ہوئے صرف پانچ لوگوں کی موت ہوتی تھی، جو 2016 میں بڑھ کر 30 ہوگئی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق شراب پی کر گاڑی چلانے سے سڑک حادثات میں ہونے والی اموات کی اہم وجہ ہے۔ ترقیافتہ ممالک میں ہونے والے سڑک حادثوں میں تقریباً 20 فیصدی ڈائیوروں کے جسم میں شراب پائی گئی جبکہ ترقی پذیر ممالک میں یہ نمبر 69 فیصدی نکلا، لوگوں کو موت کے چنگل سے بچانے کے لئے مرکزی حکومت نے پچھلے سال شراب پی کر گاڑی چلانے والوں پر 10 ہزار روپے جرمانہ بھی مقرر کیا تھا پھر بھی ایسے حادثات نہیں رک رہے ہیں تو حکمت عملی کو مزید بہتر بنانے پر غور کیا جانا چاہئے۔ گاڑیوں کا اتنی تعداد میں ہر سال اترنے سے مسئلہ مزید سنگین ہوتا جارہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟