کیا بھاجپا 2014 دوہرا پائے گی

گجرات اسمبلی چناؤ کیلئے بچے چند دنوں کو بھاجپا و کانگریس دونوں بیش قیمتی مان کر رات دن ایک کررہی ہیں۔ اسی حساب سے دونوں پارٹیوں نے اپنی کمپین کو تیز کردیا ہے۔گجرات میں کیا بھاجپا کیلئے 2014 دوہراپانا آسان ہے؟ دراصل یہ سوال اس لئے اٹھ رہا ہے کہ بھاجپا صدرامت شاہ نے اس بار گجرات کے لئے 150+ کا ٹارگیٹ طے کیا ہے۔ گجرا ت اسمبلی میں 182 سیٹیں ہیں عام طور پر اکثریت سے سرکار بنانے کے لئے محض 92 سیٹوں کی ضرورت ہے۔ بھاجپا گجرات میں 1998 ء سے مسلسل اقتدار میں ہے۔ 2001ء میں نریندر مودی کے گجرات کا وزیر اعلی بننے کے بعد ان کی قیادت میں ہی پارٹی نے وہاں 2002،2007 اور 2012ء کے اسمبلی چناؤ لڑے لیکن پارٹی کی جیت زیادہ سے زیادہ 127 سیٹوں تک رہ گئی۔ کانگریس نے ضرور1985 ء میں 149 سیٹیں جیتی تھیں۔ گجرات میں وہی اس کی آخری جیت بھی ہے۔ بھاجپا کا سب سے بڑا چہرہ نریندر مودی ہیں۔ بھاجپا اپنے مشن 150 کے ٹارگیٹ کو حاصل کرنے کے لئے کوئی کثر چھوڑنا نہیں چاہتی ہے۔ ایسے میں پارٹی نے اس مہینے سے ہی مودی کی 25-30 ریلیاں کرانے اور شہری علاقہ میں روڈ شو کرنے کا پلان بنایا ہے۔ نریندر مودی کی کشش لگاتار بڑھتی جارہی ہے۔ دہلی ، بہار اور پنجاب کے چناوی نتیجوں کو اگر نکال دیں تو اس دوران جن ریاستوں میں بھی اسمبلی چناؤ ہوئے ہیں اس میں نریندر مودی کا جادو سر چڑھ کر بولا ہے۔ بھاجپا کے پاس امت شاہ جیسا حکمت عملی ساز بھی ہے۔ ان کی حکمت عملی کے مقابلہ میں کھڑا ہو پانا حریف پارٹیوں کے لئے بہت مشکل ثابت ہورہا ہے۔ بھاجپا ایم پی شتروگھن سنہا کا کہنا ہے گجرات کی جنتا میں نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کو لیکر غصہ ہے۔ یہ بات صاف ہے کہ گجرات اسمبلی چناؤ بھاجپا کے لئے محض ایک چناؤ نہیں بلکہ چنوتی بھی ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر اشوک گہلوت نے نوٹ بندی و جی ایس ٹی نافذ ہونے کے سبب سبھی طبقوں خاص کر چھوٹے تاجروں کو ہونے والی بھاری مشکلوں کو سرکار کے ذریعے نظراندازکرنے کا الزام لگاتے ہوئے دعوی کیا ہے نوٹ بندی کے فیصلہ کا ایک سال پورا ہونے پر جشن منانا سرکار کے لئے الٹا پڑے گا۔ نوٹ بندی کے نتیجہ الٹے نکل رہے ہیں۔ لوگوں کے کام دھندے نوٹ بندی کے سبب چوپٹ ہوگئے ہیں۔ ان کی نوکریاں جا رہی ہیں۔ کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے بھروچ ریلی میں مرکز کی مودی سرکار اور بھاجپا پر جم کر تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ووٹنگ کے دن بھاجپا کو کرنٹ لگے گیا۔ بھڑوچ راہل گاندھی کے دادا فیروز گاندھی کا آبائی ضلع بھی ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جو کبھی کانگریس کا گڑھ رہا ہے۔ ریلی میں راہل نے گجرات ماڈل پر بھی حملہ کیا۔ انہوں نے کہا گجرات ماڈل صنعت کاروں کے لئے غریبوں کے لئے نہیں۔ غریبوں سے زمین ، بجلی ، پانی لو اور صنعت کاروں کو دو ،یہی مودی جی اور وجے روپانی جی کا گجرات ماڈل ہے۔ راہل کی ریلیوں میں بھاری بھیڑ آرہی ہے لیکن سوال یہ ہے کیا یہ سب کانگریس کو ووٹ بھی دیں گے؟ کانگریس اگربھیڑ کو ووٹوں میں تبدیل کرنے میں مات کھاتی ہے ۔ سازگار ماحول ہونے کے باوجود بھاجپا کو گجرات میں ہرانا مشکل لگتا ہے۔حالات ٹھیک ہونے کے باوجود 2014 جیسی کارکردگی دوہرا پانے میں بھاجپا کیلئے بھی مشکل اس لئے ہو سکتی ہے کہ اس دوران گجرات کے سیاسی پس منظر میں خاصی تبدیلی آئی ہے۔ دلتوں پر شروع ہوئے حملوں نے گجرات کے اندر پورے دلت سماج کو بھاجپا کے مخالف کھڑا کردیا ہے۔ پارٹیدار اور او بی سی بھی ریزرویشن کے مسئلہ پر سرکار کے خلاف ہوگئے ہیں۔ یہ دونوں بھاجپا کے مضبوط ووٹ بینک رہے ہیں۔ تقریباً 20 سال سے مسلسل اقتدار میں رہنے کی وجہ سے بھاجپا کے خلاف اینٹی ان کمبینسی فیکٹر بھی کام کرے گا۔ کل ملاکر بھاجپا کے لئے 2014 دوہراپانا آسان نہیں ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟