راہل گاندھی کی تاجپوشی اور گجرات چناؤ

لمبے سیاسی انتظار کے بعد آخر کار راہل گاندھی کے کانگریس کے صدر بننے کا راستہ صاف ہوگیا ہے۔ حالانکہ راہل کا صدربننا تو طے ہی تھا لیکن اس کی دلچسپی ان کی ٹائمنگ کو لیکر تمام قیاس آرائیاں لگائی جارہی ہیں۔ دو مرحلوں میں گجرات میں ہونے والے چناؤ کے دوران جب9 دسمبر کو پہلے مرحلہ کی پولنگ ہوگی تب تک راہل گاندھی کے کانگریس صدر بننے کا اعلان ہوچکا ہوگا۔ اب جب راہل گاندھی کی تاجپوشی محض ایک خانہ پوری بھر رہ گئی ہے ایسے میں راہل کا مستقبل کا سفر آسان نہیں ہوگا۔ پارٹی کی کمان سنبھالنے کے بعد ان کے سامنے پارٹی کاڈر اور جنتا تینوں کوساتھ لیکر چلنا ہوگا۔ دیش بھر میں چل رہی مودی لہر اوربھاجپا کے کانگریس مکت بھارت کے عزم سے نمٹنا کانگریس کے نئے سپہ سالار کے لئے سب سے بڑا امتحان ہوگا۔ پچھلے تین برسوں میں جس طرح دیش کی سیاست میں اپوزیشن کا کردار سمٹتا جارہا ہے اور خاص کر کانگریس کے ہاتھ سے اس کے ایک کے بعد ایک قلعہ ڈھتے جارہے ہیں ایسے میں کانگریس کو اس کا پرانا گورو دلانا آسان کام نہیں ہوگا۔ 19 برسوں کے لمبے وقفہ کے بعدجب سونیا گاندھی کے ہاتھ سے کمان راہل کے پاس آئے گی تو ان کے سامنے وراثت اور نئی جان ڈالنے اور جدوجہد کے تین بڑے سوال ہوں گے۔ اپنے قیام کے بعد سے مشکل دور سے گزر رہی کانگریس کو نئے سرے سے آکسیجن دینا راہل کے لئے مشکل چنوتی ہوگی۔ پارٹی کے اندر ایک بڑے طبقہ کا خیال ہے کہ راہل کی قیادت میں کانگریس اپنی روایتی سیاست چھوڑکر تیزی سے تبدیلی کی طرف بڑھے گی۔ پارٹی کے طریقہ کار میں وسیع تبدیلیاں دکھائی دیں گی۔ ایسے لوگوں کا خیال ہے کہ راہل نہ صرف پارٹی کو نئی رفتار دیں گے بلکہ جارحانہ تیور بھی دیں گے۔ راہل گجرات میں بہت محنت کررہے ہیں، ان کی ریلیوں میں بھیڑ بھی آرہی ہے۔ ان کی ساکھ میں بھی تبدیلی آرہی ہے اکیلے راہل نے بھاجپا کو ہلا کر رکھ دیا ہے تبھی تو مودی سرکار میں پی ایم سمیت آدھا درجن وزیر گجرات میں ڈیرا ڈالے ہوئے ہیں۔ راہل نے یہ تو ثابت کردیا ہے کہ وہ مورچہ پر سامنے آکرلڑنا چاہتے ہیں اور ہار کا خطرہ لینے کو تیار ہیں۔ دراصل اب تک راہل گاندھی کی سب سے بڑی تنقید اسی بات کو لیکر ہوا کرتی تھی کہ وہ خطرہ مول لینا نہیں چاہتے اور ذمہ داری سے بھاگتے ہیں لیکن گجرات چناؤ کے سلسلہ میں اب تک وہ کئی دن ریاس میں گزار چکے ہیں اور وہ پوری طرح ذمہ داری لیتے دکھائی پڑ رہے ہیں۔ راہل نے اپنی ٹیم میں جوش ہوش کو مکس کئے ہوا ہے۔ گجرات چناؤ کے دوران اپنے پرانے گاڈ احمد پٹیل اور اشوک گہلوت کے مشورہ سن رہے ہیں اور ان پر عمل بھی کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی ریلیوں میں راہل ایسے اشو اٹھا رہے ہیں جوجنتا کے دل کو چھوتے ہیں۔ پارٹی کے اندر راہل کو لیکر اکثر پرانے اور نئے لیڈروں کے درمیان نظریاتی ٹکراؤ کی خبریں آتی رہتی تھیں، لیکن راہل نے خوداس لڑائی کو ختم کرنے کی پہل کی ہے۔ انہوں نے گجرات میں اپنی پوری طاقت جھونکی ہے۔ تمام اوپینین پول کانگریس کی دونوں ریاستوں (ہماچل اور گجرات) میں جیت کا امکان نہیں ظاہر کیا گیا ہے۔ ایسے میں محفوظ راستہ نکالتے ہوئے نتیجہ سے ٹھیک پہلے صدر بننے کی خانہ پوری کرنے کا پلان بنایا گیا ہے۔ ویسے بھی پچھلے چار مہینے کے دوران راہل نے پارٹی کے اندر اپنی ٹیم کو نئے سرے سے قائم کیا ہے اور اب بس صدر بننے بھر کی دیری تھی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟