دیش میں منحوس ذیابیطس تیزی سے بڑھ رہی ہے!

امراض قلب کے بعد شوگر یعنی (ذیابیطس) تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بھارت میں 6کروڑ 68 لاکھ سے زائد ذیابیطس کے مریض ہیں اور 7 کروڑ کے قریب اس بیماری کے خطرے کے نشانہ پر ہیں۔ سب سے بڑی تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ منحوس بیماری چھوٹے بچوں میں بھی بڑھ رہی ہے۔ دیش میں یہ مانا جاتا ہے ذیابیطس ٹائپ2 بڑوں کی بیماری ہے اوربچوں و کم عمر میں ذیابیطس ٹائپ1 ہوتی ہے۔ لیکن اب کھانے پینے اور رہن سہن زندگی کے سبب دیش میں ذیابیطس کی شکل تیزی سے بدل رہی ہے۔ بچے و کم عمر کے لوگ بھی ذیابیطس ٹائپ2 کی بیماری سے متاثر ہونے لگے ہیں اور ایسے مریضوں کی تعداد بڑ ھ رہی ہے۔ ماہرین مانتے ہیں کہ امراض قلب سے مریضوں کی بڑھی ہوئی تعداد کی ایک اہم وجہ ذیابیطس ہے۔ آج ذیابیطس کے مریض آنے والے کل میں امراض قلب کے مریض بننے کا بہت زیادہ اندیشہ ہے۔ یوں تو اس مرض سے متاثر لوگ پوری دنیا میں ہیں لیکن چین کے بعد بھارت سب سے زیادہ ذیابیطس کے مریضوں کا دیش بن چکا ہے۔ ایک غیر سرکاری اسٹڈی میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ذیابیطس مریضوں کے ذریعے انجکشن سے لئے جانے والے انسولین کی فروخت میں پچھلے نو برسوں میں پانچ گنا اور منہ سے نگلنے والی دواؤں کی خرید میں چار سال میں ڈھائی گنا اضافہ ہوا ہے اور یہ بھی تشویش کی بات ہے کہ اب یہ مرض عمر بھی نہیں دیکھ رہا ہے۔ نوجوان اور کمسن بچے تک اس کی زد میں آرہے ہیں۔ ذیابیطس بیشک خطرناک بیماری ہے لیکن کھانے پینے اور رہن سہن میں تبدیلی لا کر اسے کافی حد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ ٹائپ1 کے مریض کو انسولین لینی پڑتی ہے لیکن ٹائپ2 کے مریض کھانے پینے و ایکسرسائز سے متعلق ڈسپلن کو اپنا کر اپنے شوگر لیول کی سطح پر کنٹرول رکھ سکتے ہیں۔ ہندوستانی غذائیت میں روایتی خوردنی باجرہ، جوار، لال چاول اور چورا چاول وغیرہ کو ترجیح دی جاتی تھی جو ذیابیطس کی بیماری کو پنپنے سے روکتے تھے لیکن سبز انقلاب کا زور صرف چاول اور گیہوں کی پیداوار پر رہا جو انسولین سے آراستہ غذا ہے۔ساتھ ہی مغربی رہن سہن ، جنگ فوڈ اور فاسٹ فوڈ نے کوڑ میں کھاج کا کام کیا ہے۔ ملاوٹ خوری بھی اس میں معاون ہوئی ہے۔ بڑھتی شہری آبادی کی وجہ سے عام آدمی کے لئے دن رات برابر ہوگئے ہیں۔ اس سے کام کرنے کا بھی رنگ ڈھنگ بدلا ہے اور جسمانی محنت کی قوت بھی گھٹی ہے۔ ان اسباب نے مل کر ذیابیطس کو ایک وسیع بحران بنا دیا ہے۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ سرکار اس سے نمٹنے کے لئے بڑے پیمانے پر پروگرام تیارکرے اور سنجیدگی سے اس پر عمل کرے۔ بچوں کے لئے ذیابیطس کی دوائیں مفت دی جائیں تاکہ اس پرروک لگ سکے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟