مسجد میں نماز پڑھ رہے لوگوں پر حملہ

مصر میں اب تک کے سب سے بڑے خوفناک دہشت گرد حملہ میں شورش زدہ شمالی سینائی علاقہ کی ایک مسجد میں دہشت گردوں نے جمعہ کی نماز کے وقت قہر برپایا۔ جمعہ کو دہشت گردوں نے پہلے آئی ای ڈی سے دھماکہ کیا اور پھر گولیاں برسائیں۔ اس حملہ میں تقریباً 300 لوگوں کے مرنے کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ 150 سے زائد زخمی ہیں۔ جس کسی نے بھی بچ کر نکلنے کی کوشش کی انہیں مار ڈالا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ حملہ آوروں نے مسجد کے باہر کھڑی گاڑیوں کو آگ لگادی تھی جس سے لوگوں کو باہر نکلنے سے روکا جاسکے۔ انہوں نے متاثرین کی مدد کرنے کی کوشش کررہی ایمبولنس گاڑی پر بھی گولی چلائی۔ جدید مصر کی تاریخ میں یہ ابھی تک کا سب سے خطرناک کٹرپسندی حملہ تھا۔ ابھی اس حملہ کی ذمہ داری کسی نے نہیں لی ہے مگر مانا جارہا ہے کہ اس کے پیچھے اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ پچھلے سال سے وہ عام لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ سرکاری نیوز ایجنسی منیٰ کے مطابق حملہ آوروں نے العارش شہر کی الراودہ مسجد کو نشانہ بنایا۔ سینائی جزیرہ 2001 سے ہی تشدد کی آگ میں جل رہا ہے ۔ وہاں تشدد کے واقعات میں 700 جوانوں کی موت ہوچکی ہے۔ 
سال2014 میں دہشت گردوں نے 31 جوانوں کو قتل کردیا تھا۔ اس کے بعد ایمرجنسی لگائی گئی تھی۔ اسی سال مئی میں 26 عیسائیوں کا قتل کردیا گیا تھا۔ واردات کے بعد مصر کے صدر عبدالفتح الیسی نے ٹی وی پر قوم کے نام خطاب میں اس حملہ میں مارے گئے اور زخمی ہوئے لوگوں کے تئیں ہمدردی کا اظہار کیا اور یہ بھی کہا کہ اس واردات کا بدلہ لیا جائے گا۔ تحریر انسٹیٹیوٹ آف مڈل ایسٹ پالیسی کے ریسرچ اسکالر تموتھی کیلداس مانتے ہیں کہ اس کے پیچھے آئی ایس کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ پچھلے سال سے وہ عام لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور خاص کر عیسائیوں کو۔ انہوں نے کہا یہ ایک صوفی مسجد تھی جسے آئی ایس اپنے مذہب کے خلاف مانتا ہے۔ شمالی سینائی میں بہت سے لوگ آئی ایس کے خلاف لڑائی میں حکومت کی مدد بھی کررہے تھے۔ ایسے میں حملہ کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے اس علاقہ میں رہنے والے بددو قبائلی اپنے اوپر ہوئے اس حملہ کے بعد اور کھل کر سرکار کی مدد کرسکتے ہیں۔ مصر سرکار کے سامنے یہ ایک بہت بڑی چنوتی ہے۔ اگر اس حملہ کے پیچھے آئی ایس کا ہاتھ ہے تو یہ تشویش کا باعث ہے کیونکہ پچھلے کچھ وقت سے آئی ایس نے عراق ۔شام میں اپنی پکڑ گنوائی ہے۔ ہوسکتا ہے اس طرح کے حملہ کو انجام دے کر آئی ایس اپنے حمایتیوں تک یہ پیغام دینا چاہ رہی ہو کہ وہ ابھی بھی سرگرم ہے اور اپنے دشمنوں سے لڑ رہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟