گنگا جمنی تہذیب کا ملن تو ٹھیک لیکن چیلنج بھی کم نہیں

وہ سنگ سنگ تیزی سے آئے، ہاتھ ملیا، گلے ملے نئی دوستی کا رنگ اور گاڑھا کرنے کے لئے پھر گلے ملے۔۔۔ اب وہ نئے سیاسی اوتار میں دکھائی دینے لگے ہیں یہ ہیں راہل گاندھی و اکھلیش یادو۔ گنگا جمنی کی نئی تہذیب کا عروج جو نئے زمانے میں سیاسی ہواؤں کا رخ اپنی طرف موڑنے کیلئے ساتھ ساتھ نکل پڑیں ہیں، نوجوانوں کو خوابوں و امیدوں کو پنکھ لگانے کیلئے نکلتے ہیں۔ کانگریس کو یوپی میں جمانے کی چاہ جہاں کانگریس نائب صدر راہل گاندھی میں ہے تو اکھلیش اپنی سرکار دوبارہ بنانے و اپنے خاندان کو پوائنٹ دینے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں۔ وقت کی ضرورتوں نے دونوں کو سیاسی سفر میں ایسے موڑ پر لا کھڑا کردیا ہے جہاں سے مشن2017ء ہی نہیں مشن2019ء کو بھی کامیاب بنانے کا اشارہ ملتا ہے۔ دونوں میں اس بات کی سمجھ بنی ہوئی ہے کہ کون کہاں کس کا سپورٹ کرے گا۔ لکھنؤ میں ویروار کے دن انہی امکانات اور وعدوں کا گواہ بنا۔ ان دونوں کی جوڑی اتحاد کے ساتھیوں کے لئے فائدے مند بھلے ہی نظر آرہی ہو لیکن دونوں کے لئے چیلنج بھی کم نہیں ہیں۔ سپا۔ کانگریس نے گٹھ جوڑ کرکے حریف پارٹیوں پر سائیکلوجیکل بڑھت بنانے کی سمت میں قدم تو بڑھایا ہے لیکن دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ چناؤ میں دونوں کتنا قدم تال ساتھ کرپاتے ہیں۔ اتنا توطے ہے کہ اس بار یوپی کے اقتدار کی دوڑ میں مقابلہ بیحد دلچسپ ہوگا۔ سپا اور کانگریس اگر اپنا اپنا ووٹ بینک ایک دوسرے کو ٹرانسفر کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو وہیں اتحاد سانجھے میں رہے گا۔ حالانکہ یہ بہت آسان نہیں ہوگا۔ سپا میں کچھ مہینوں سے چلے آرہے واقعات اور ملائم سنگھ یادوا ور شیو پال سنگھ کی چنوتی سیاسی نقشے سے غائب ہونا کوئی نہ کوئی گل کھلا سکتی ہے۔ راہل اور اکھلیش نئی پیڑھی کے نیتا ہیں اور دونوں کی عمر میں زیادہ فرق بھی نہیں ہے۔ اکھلیش43 سال کے ہیں تو راہل 46 سال کے۔ وہ ہندوستانی تہذیبوں کے ساتھ ہی کارپوریٹ کلچر سے بخوبی واقف ہیں۔ پارٹی اور سرکار چلانے میں روایتی طریقوں کے ساتھ نئے تجربے بھی کرتے رہے ہیں۔ راہل گاندھی اور اکھلیش نے نہ صرف اپنی تقریروں میں بار بار خود کے لئے نوجوان لفظ کا استعمال کیا بلکہ نوجوان دکھائی دینے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ عموماً چناؤ کے دوران بڑھی داڑھی کے ساتھ لوگوں کے بیچ آنے والے راہل عام طور پر کلین شیو میں چمکتے دکھائی دیتے ہیں لیکن اترپردیش کی 403 میں سے 170 سیٹوں پر ووٹوں میں 3 فیصدی کا رجحان امیدواروں کی قسمت بدل دے گا۔ کانگریس ۔ سماجوادی پارٹی کے درمیان اتحاد ہونے کے سبب ان سیٹوں پر تجزیئے تیزی سے بدل رہے ہیں۔ مشرقی اور مغرقی اترپردیش میں دونوں پارٹیوں کے نیتا اپنے امیدواروں کو تبھی جتا سکیں گے جب ووٹ ٹرانسفر کرا پائیں گے۔ یہاں پر کئی سیٹیں ایسی ہیں جہاں ہار جیت کا فرق ہزاروں میں سے کم ہوتا رہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟