ایچ 1 بی ویزا پر نکیل کسنے کی تیاری

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست نے اپنا اثر دکھانا شروع کردیا ہے۔ امریکی صدر 7 مسلم ملکوں کے شہریوں کو امریکہ میں داخلے پر 90 دن کی پابندی لگانے کے بعد اب ایچ۔1 بی ویزا پالیسی کو پہلے سے زیادہ سخت کرنے کی کارروائی میں لگ گئے ہیں۔ اسے قانونی شکل دینے کے لئے امریکی پارلیمنٹ میں جو بھی بل پیش کیا گیا ہے اس کے تقاضوں کے مطابق یہ ویزا حاصل کرنے کے لئے کم از کم تنخواہ اور حد60 ہزار ڈالر سے بڑھا کر 1لاکھ30 ہزار امریکی ڈالر کرنے کی تجویز ہے۔ اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر یہ بل پاس ہوگیا تو بھارت کے انفارمیشن ٹیکنالوجی سیکٹر میں سافٹ ویئر صنعت پر اس کا منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ اس وقت ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں قریب 2 لاکھ ہندوستانی آئی ٹی پیشہ ور انجینئر ایچ۔1 بی ویزا پر کام کررہے ہیں اور ہندوستانی نژاد قریب 30 لاکھ امریکی شہری ہیں ۔ اس کا اثر کتنا پڑ سکتا ہے اسے صرف اسی بات سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ترمیمی بل پیش ہوتے ہی انڈین شیئر بازاروں میں آئی ٹی کمپنیوں کے شیئر منہ کے بل جا گرے۔ امریکہ ہندوستانی آئی ٹی کمپنیوں کا سب سے بڑا بازار ہے۔ وہاں کام کرنے والی زیادہ تر ہندوستانی آئی ٹی کمپنیاں ہیں۔ ایچ1 بی ویزا کے تحت ہی ہندوستانی آئی ٹی پیشہ وروں کو وہاں کچھ سال کے لئے لے جاتی ہے۔ دراصل یہ اس لئے ہورہا ہے کیونکہ امریکی آئی ٹی پیشہ وروں کو نوکری پر رکھنے کے مقابلے کافی سستا پڑتا ہے لیکن کچھ حدتک یہ بھی صحیح ہے کہ امریکہ آئی ٹی بازاراس لئے بھی ہندوستانیوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں کیونکہ ہندوستانی آئی ٹی پروفیشنل اپنے امریکی ہم منصب سے زیادہ محنتی ہوتے ہیں اور کام کے تئیں زیادہ وفادار ہوتے ہیں اگر ہم ٹرمپ کے چناؤ ابھیان کے دوران کئے گئے اعلانات اور وعدوں پر غور کریں تو انہوں نے ہندوستانیوں اور وزیر اعظم نریندر مودی کی تعریفوں کے پل باندھے تھے۔ اس لئے یہ موقعہ پرستی جھلکتی ہے کہ مودی اور ٹرمپ کے درمیان خاص طور پر ایچ ویزا کے سلسلے میں کوئی معاہدہ ہوسکتا ہے جس میں ایسی خاص رعایتوں کی سہولت ہو کہ ہندوستانی کمپنیوں کے سامنے کسی طرح کی اڑچن نہ آ پائے۔ دراصل ٹرمپ چاہتے ہیں کہ ان کے دی میں کمپنیاں زیادہ سے زیادہ امریکیوں کو نوکری پر رکھیں۔ بل پاس ہونے پر ایچ1 بی ویزا والوں کو زیادہ تنخواہ دینی ہوگی۔ ہندوستانی وہاں امریکیوں کے مقابلے کم تنخواہ پر کام کرتے ہیں ایسے میں بڑی تنخواہ آئی ٹی کمپنیاں امریکیوں کو ترجیح دے سکتی ہیں۔ ایک لاکھ سے زیادہ ایچ1 بی ویزا ہولڈر ہندوستانی امریکہ میں کام کرتے ہیں۔ بل پاس ہونے پر انہیں واپس بھارت لوٹنے پر مجبور ہونا پڑ سکتا ہے۔ ساتھ ہی نئے پیشہ وروں کے لئے موقعہ کم ہونے کے امکانات ہیں۔ ابھی تک ہندوستانی پروفیشنل کا کم تنخواہ پر کام کرنا ان کے حق میں جاتا ہے۔یہ سہولت ان کے ہاتھ سے نکلنے کا خطرہ ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور نکل آئے گا۔ دراصل امریکہ کی سیاہ فام آبادی مسلم دہشت گردی سے پریشان ہے۔ ان کے دماغ سے 9/11 کے خطرناک دہشت گردی کا ڈر کم نہیں ہوا۔ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی چناؤ میں اسی ذہنیت والے لوگوں کی نمائندگی کررہے ہیں پھر ایچ1 بی ویزا پر غیرملکی ورکروں سے کام کرانے والی کمپنیوں کو جو فائدہ امریکہ کی بڑی کمپنیوں کو اپنے سامان اور خدمات سستی رکھنے میں ملتا رہا ہے وہ نہیں ملے گا۔ جنہیں یہ ویزا دیا جاتا ہے انہیں کئی طرح کے حق ملتے ہیں لیکن انہی امریکی پرواسی والے حق نہیں ملتے۔یہ ویزا صرف آئی ٹی سیکٹر کیلئے نہیں ہے اس میں بایو ٹکنالوجی اور فیشن جیسے کئی طرح کے کاروبار شامل ہیں۔ امریکی صنعتی دنیا نے ٹرمپ کی اس پہل کا خیر مقدم نہیں کیا ہے۔ بہرحال ! ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ ہمارے آئی ٹی سیکٹر کو اس سے زیادہ نقصان نہ اٹھانا پڑے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟