ووٹ نہیں ڈالتے تو سرکار پر الزام مڑھنے کا حق نہیں

اگر آپ ووٹ نہیں دیتے تو آپ کو کسی کام کے لئے سرکار پر الزام مڑھنے کا حق بھی نہیں ہے۔ یہ بات سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جے۔ ایس۔ کھیر نے ایک معاملے کی سماعت کے دوران مدعی سے کہی۔ مدعی نے دیش بھر کے قبضوں کو ہٹائے جانے کے لئے حکم دینے کی اپیل کی تھی۔ یہ بھی بتایا کہ سرکاری سسٹم سے ناراض ہوکر وہ چناؤ میں ووٹ نہیں ڈالتے۔ چیف جسٹس کی سربراہی والی اس بنچ میں جسٹس این وی رمنا اور جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ بھی ہیں۔ عرضی پر سماعت کرتے ہوئے بنچ نے دیش بھر میں قبضوں کو ہٹائے جانے کا کوئی حکم دینے سے صاف منع کردیا۔ اس نے کہا کہ دہلی میں بیٹھ کر یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ کس شہر میں کہاں قبضہ ہے اس لئے عرضی گزار سڑکوں کے کنارے اور دیگر پبلک مقامات پر قبضوں کو دیکھ کر انہیں ہٹائے جانے کی مانگ والی عرضی متعلقہ ہائی کورٹ میں دائرکرے اور ان سے حکم پاس کرنے کی مانگ کرے۔ سماجی کارکن دھنیش ارادھن نے دہلی کی غیر سرکاری تنظیم ’وائس آف انڈیا‘ کی طرف سے عرضی دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا سرکار قبضے ہٹانے کے لئے کچھ بھی نہیں کررہی ہے اس لئے سپریم کورٹ پورے دیش میں نافذ ہونے والا حکم جاری کرکے مرکز اور ریاستی حکومتوں سے ناجائز قبضے ہٹانے کے لئے کہے۔ سماعت کے دوران بنچ نے دھنیش سے پوچھا کہ چناؤ میں وہ ووٹ ڈالتا ہے یا نہیں؟ جواب میں عرضی گزار نے کہا اس نے اپنی زندگی میں کبھی ووٹ نہیں ڈالا۔ اس پر بنچ نے اسے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا جب تم نے سرکار کو چننے کے لئے ووٹ نہیں ڈالا تو تمہیں سرکار سے سوال پوچھنے یا اس پر کام نہ کرنے کا الزام مڑھنے کا کیا اختیار ہے؟ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم ہے۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری دیش بھارت میں ایک تہائی ووٹر پولنگ میں حصہ نہیں لیتے۔ چناؤ کمیشن کے ذریعے جاری سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 2014 ء کے عام چناؤ میں کل66 فیصدی پولنگ ہوئی۔ 2009ء کے لوک سبھا چناؤ میں صرف 58 فیصدی ووٹ پڑے تھے۔ 2014ء کے لوک سبھا چناؤ میں 81.5 کروڑ مجاز ووٹروں میں سے صرف55 کروڑ 38 لاکھ 1 ہزار 801 ایک ووٹر نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔ وہیں 2009ء میں 71.7 کروڑ حقدار ووٹر میں سے 41کروڑ 71 لاکھ 51 ہزار 969 لوگوں نے پولنگ میں حصہ لیا تھا۔ عام طور پر اونچے طبقے کے لوگ اپنے گھروں میں ہی پولنگ کے دن ٹی وی دیکھتے رہتے ہیں اور ووٹ ڈالنا ضروری نہیں سمجھتے اور یہی طبقہ ہے جو سب سے زیادہ نکتہ چینی کرتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟