کھیتی بچانے کیلئے نیل گائیوں کی اجتماعی ہتیا

یہ صحیح ہے جنگلی جانوروں کے ذریعے فصل بربادکرنے کا مسئلہ بیشک پرانا ہے لیکن اس کا یہ حل بھی صحیح نہیں ہے کہ انہیں مار ڈالا جائے۔ نیل گائے کو مارنے پر ایک تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے۔ بہار میں جس طرح سے شوٹروں کو تعینات کرکے بڑے پیمانے پر نیل گائیوں کو مارنے کی کمپین چلائی جارہی ہے اس سے نہ تو جنگلات و ماحولیات وزارت خوش ہے اور نہ ہی دیش کی زیادہ تر عوام۔کیبنٹ ساتھی مینکاگاندھی نے اس قدم پر اعتراض جتایا ہے۔ ان کے ذریعے اپنی سرکارکی اس پالیسی کے تئیں پیدا ناراضگی کو اسی سلسلے میں سمجھنا چاہئے اس کا مطلب یہ نہیں کہ جانوروں کا بچاؤفصلوں کی سلامتی اور کسان کے مفادات سے زیادہ اہم ہے۔ بہار کے موکاما ٹال جہاں سال میں صرف ایک فصل پیدا ہوتی ہے مغربی چمپارن میں نیل گائیوں کے خوف سے کھیتوں میں کھڑی فصلوں کی حفاظت مشکل ہے۔ بہار کے کسانوں کے کسی علاقہ نے نتیش کمار سرکار کو مرکز سے مدد مانگنے کے لئے مجبور کیا۔جس کا نتیجہ وہاں 250 سے زائد نیل گائیوں کی اجتماعی ہتیا کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ اسی طرح مہاراشٹر کے چندر پور میں جنگلی سوروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ جنگلاتی زندگی تحفظ ایکٹ کی شقات کے تحت مرکزی حکومت نے تین ریاستوں کو فصلوں کو نقصان پہنچا رہے جانوروں کو مارنے کی اجازت دی ہے۔ بہار کو نیل گائے اور جنگلی خنزیر، اتراکھنڈ کوجنگلی خنزیر اور ہماچل پردیش کو بندروں کو مارنے کی اجازت دی گئی تھی۔ جنگلاتی جانور تحفظ محکمہ سے وابستہ ایک افسر نے بتایا کہ موجودہ ایکٹ میں ریاستوں کے چیف جنگلاتی نگراں کو یہ اختیار ہے کہ اگر کوئی جانور فصلوں کو نقصان پہنچاتا ہے تو اسے مارنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ شیر ، چیتا کے معاملے میں تو کچھ حد تک جانور کی پہچان کرنا مشکل ہے لیکن نیل گائیوں کے جھنڈ میں نقصان پہنچانے والے جانور کی پہچان نہ ہونے کی وجہ سے ریاست خود ہی فیصلہ لے لیتی ہے۔ جنگلی جانور تحفظ قانون میں خطرناک جانوروں کو مار ڈالنے کی سہولت ہے لیکن صرف انہی جانوروں کو جن سے ہماری زندگی کو خطرہ ہے لیکن یہاں جنگلی جانوروں کو اجتماعی طور سے جس طرح نشانہ بنایا جارہا ہے وہ نہ صرف غیر انسانی عمل کا مظاہرہ ہے بلکہ جانوروں سے ان کا جنگل چھین لینے کے جرم کے بعد ان کو نشانہ بنانے کا یہ دوسرا جرم ہے۔موکاما میں 250 نیل گائیوں کے مارے جانے کے بعد بہار سے دہلی تک کی سیاست گرما گئی ہے۔ مرکزی سرکار کی دو وزارتیں تک آمنے سامنے آگئی ہیں۔ مدھیہ پردیش، بہار، اترپردیش، مہاراشٹرہریانہ، راجستھان جیسی ریاستوں میں نیل گائیوں کی بھرمار ہے۔ یوپی میں 10 ہزار سے زیادہ کسان ہر سال نیل گائیوں کی وجہ سے فصل خراب ہونے کی شکایت کرتے ہیں۔ بہار کے 34 ضلعوں میں نیل گائیوں کا خوف ہے۔ کسانوں کے مفادات کی حفاظت ہونی چاہئے وہیں کھیتی کو بچانے کے لئے جانوروں کا اجتماعی قتل بھی حل نہیں ہے۔ اس مسئلہ کا کوئی اور بہتر متبادل تلاشنا ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟