’’اڑتا پنجاب ‘‘پر بونڈر

شاہد کپور ،عالیہ بھٹ اور کرینہ کپور جیسے بڑے ستاروں سے سجی انوراگ کشپ کی فلم ’’اڑتا پنجاب ‘‘ پر گھماسان تیز ہوگیا ہے۔ غور طلب ہے کہ فلم پر سینسر بورڈ کی قینچی چلنے کو لیکر کافی ہنگامہ مچا ہوا ہے۔ سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفکیشن یعنی سینسر بورڈ کے چیئرمین پہلاج نہلانی نے فلم کے کئی مناظر اور مکالموں پر قینچی چلانے کو کہا ہے۔ نشیلے لت پر مرکوز ’اڑتا پنجاب‘ پرسینسر بورڈ کی قینچی کو چیلنج کرتے ہوئے پروڈیوسر بمبئی ہائیکورٹ پہنچ گئے۔ انوراگ کشپ پروڈیوس اور ڈسٹریبیوشن کمپنی ’فینٹنم فلمز‘‘ کی طرف سے اس عرضی میں ہائی کورٹ سے سرکار یا سینسر بورڈ کو فلم میں اعتراض آمیز مناظر اور ڈائیلاگ پر جائزہ کمیٹی کے فیصلے سے متعلق حکم کی کاپی دینے کی ہدایت دینے کی مانگ کی گئی ہے۔بورڈ نے بدھوار کو ہائی کورٹ کو بتایا کہ اس میں 13 چیزوں پر اعتراض جتاتے ہوئے ’’A‘‘ سرٹیفکیٹ دینے کا پروپوزل دیا ہے۔ اس فلم میں 14 گالیاں، پنجاب کے 8 شہروں کے نام اور کچھ سین ہٹانے کی بات کہی گئی ہے۔ یہی نہیں ان الفاظ، گالیوں اور شہروں کا استعمال فلم میں اتنی بار کیا گیا ،اتنی جگہ سے اسے ہٹانے کے احکامات دئے ہیں۔ ایسے میں فلم میں کل 94 کٹ لگانے ہوں گے۔ بمبئی ہائی کورٹ نے جمعرات کو سینسر بورڈ سے اس بات پر صفائی دینے کو کہا کہ آپ فلم سے ’پنجاب‘ ہٹانے پر کیوں زور دے رہے ہیں؟ اس پر بورڈ نے کئی تجویزیں رکھی ہیں اور بتایا کہ13 تبدیلیاں صحیح ہیں یہ منمانی نہیں ہے۔ ہم نے مشورہ دیتے وقت اپنا دماغ لگایاہے۔ ہم پنجاب اور وہاں کے لوگوں کے بارے میں استعمال کی گئی زبان کو لیکر اعتراض کررہے ہیں۔ یہ چیزیں ہٹانے کو کہا ہے سینسر بورڈ نے۔ فلم کے شروع میں دکھائے گئے پنجاب کے بورڈ کا سین پنجاب، جالندھر، چنڈی گڑھ ، امرتسر، ترنتارن، امبے سر، لدھیانہ، موگا۔ ایم پی چناؤجیسے لفظ۔ ایک گانے میں سردار کے اعتراض آمیز مقام پر کھل جانے کا سین ہے۔ ایک گانے سے ’چٹّا وے ‘ اور ’آہابھی‘ لفظوں کو بھی بہن کی گالیاں اورچسا ہوا عام جیسے ڈبل مطلب والے لفظوں کا ۔ ڈرگس لینے کے کلوز اپ شارٹس کو ایک سین میں ٹامی (شاہد کپور) کو کھلے عام پیشاب کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ایک ڈائیلاگ ’زمین بنجر۔۔۔ اولاد کنجر‘۔ فلم میں کتے کا نام جیکی ہے یہ نام بدلنے کو کہا گیا ہے۔ ایک لڑائی بمبئی ہائی کورٹ میں چل رہی ہے تو ایک الگ ہی لڑائی عدالت کے باہر اس فلم کو لیکر چھڑ گئی ہے۔ پروڈیوسر انوراگ کشپ نے سینسر بورڈ کے چیئرمین پہلاج نہلانی کو اکھڑ اور تاناشاہ بتاتے ہوئے کہا کہ نارتھ کوریا میں رہنے والے جیسا ہے۔ نہلانی کو سرکار کی کٹھ پتلی بتاتے ہوئے مکیش بھٹ نے کہا دیش میں اظہار رائے کی آزادی اور تخلیقات کے لئے یہ کالا دن ہے۔ انڈین فلمز اینڈ ٹی وی ڈائریکٹرز ایسوسی ایشن نے بدھوار کو ایک پریس کانفرنس میں فلم کے تئیں اپنی حمایت جتائی اور سینسر بورڈ کے چیئرمین پہلاج نہلانی پر سیدھی تنقید کی۔ اس موقعہ پر فلمساز مہیش بھٹ نے کہا کہ ہمارا دیش سعودی عرب میں تبدیل نہیں ہوسکتا جہاں خوشحالی تو بہت زیادہ ہے لیکن سماج میں اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے۔ میگا اسٹار امیتابھ بچن بھی فلم کی سپورٹ میںآگئے ہیں۔ انہوں نے کہا مجھے امید ہے کہ ہم ایسا سسٹم بنا سکتے ہیں جو فلم کو سرٹیفکیٹ دے نہ کہ اس میں قینچی چلائے۔ کریٹیوٹی کے قتل کی کوشش نہیں ہونی چاہئے۔ ہمیں مثبت رائے رکھنے کی آزادی ہونی چاہئے کیونکہ ہم اس فیلڈ میں اس لئے ہیں کہ اپنے من کے مطابق تبصرہ کرسکیں۔ یہ تکلیف دہ ہے کہ فلم میکرس کو عدالت جانا پڑا۔ اس فلم کی ریلیز میں دیری ہوسکتی ہے۔ اس واویلے پر سینسر بورڈ کے چیئرمین پہلاج نہلانی نے بدھوار کو کہا کہ انہیں وزیر اعظم نریندر مودی کا چمچا کہلانے میں کوئی شرم نہیں ہے۔ دراصل نہلانی پر ایسے الزام لگے ہیں کہ انہوں نے سیاسی دباؤ میں آکر فلم میں کاٹ چھانٹ والا قدم اٹھایا ہے۔ انہوں نے ایک چیلنج سے بات چیت کرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ انوراگ کشپ کو عام آدمی پارٹی کو پیسہ مل رہا ہے اور میں اپنے الزامات پر معافی نہیں مانگوں گا۔ ایسا اندیشہ جتایا جارہا ہے کہ اس فلم کا اثر پنجاب اسمبلی چناؤ پر ہوسکتا ہے کیونکہ کئی پارٹیاں ڈرگس کو چناوی اشو بنانے کی تیاری میں ہیں۔ دراصل فلم کے کلائمکس میں ایک مقامی نیتا چناؤ جیتنے کے لئے اپنے چناؤ منشور کے ساتھ ڈرگس کے پیکٹ بانٹتا ہے۔ ڈرگس کو کس طرح سے دو تین پروڈکٹس کے ساتھ ملا کر بناتے ہیں اور فیکٹری کی پوری تفصیل فلم میں ہے۔فلم میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کس طرح سے جعلی نام پر فیکٹری چل رہی ہے۔ فلم میں شاہد کپور ڈرگ ایڈکٹ پاپ سنگر بنے ہیں اور اپنے گانوں میں ڈرگس کی تعریف کرتے ہیں ۔ وہ گانوں کے ذریعے کہتے ہیں کہ سبھی کو ڈرگس لینا چاہئے۔ فلم میں عالیہ بھٹ بھی نشے کی عادی ہیں لیکن اس کے پاس پیسے نہیں ہیں ایسے میں ڈرگس کی لت پوری کرنے کیلئے وہ مردوں سے تعلق بناتی ہے۔ سوا دو گھنٹے کی اس فلم کے زیادہ تر ڈائیلاگ گالیوں سے بھرے ہیں۔ سینسر بورڈ اور کمیٹی کا خیال ہے کہ یہ فلم نوجوانوں کو غلط سمت دکھا رہی ہے جبکہ پروڈیوسر اور ڈائریکٹروں کا دعوی ہے کہ یہ سماج میں ہورہے حالات کو دکھاتی ہے۔ بتادیں پنجاب میں ڈرگس کو ’چٹّا‘ کہا جاتا ہے اس لئے اس فلم کا نام ’’اڑتا پنجاب‘‘ رکھا گیا ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پنجاب کی حقیقت دکھاتی ہے ’’اڑتا پنجاب‘‘ فلم۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟