دہلی سرکارکو صدر جمہوریہ نے دنیا تگڑا جھٹکا

دہلی کی عام آدمی پارٹی کی حکومت کو پیر کوزبردست جھٹکا لگا ہے کیونکہ صدر پرنب مکھرنی نے حکومت کے اس ترمیمی بل کو منظوری دینے سے انکار کردیا جس کے تحت دہلی حکومت کے 21 پارلیمانی سکریٹریوں کے عہدے کو فائدے کے عہدے کے دائرے سے باہر رکھنے کی سہولت بنائی گئی تھی۔ اعلی ترین ذرائع کے مطابق صدر نے دہلی حکومت کے بل کو واپس لوٹا دیا ہے۔ اس بل میں ریاستی حکومت کے پارلیمانی سکریٹری کے عہدے کو فائدے کا عہدہ نہ ماننے کی سہولت رکھی گئی تھی۔ اسے فائدے کا عہدہ مانتے ہوئے چناؤ کمیشن نے نوٹس جاری کر پوچھاتھا کہ ان کی ممبر شپ کیوں نہ ختم کی جائے؟ اس معاملے میں ممبران اسمبلی کے خلاف چناؤ کمیشن کارروائی کرتا ہے تو 70 ممبری اسمبلی میں 21 ممبران کو ممبر شپ گنوانی پڑ سکتی ہے۔ حالانکہ 67 ممبران کی بنیاد پر اکثریت ہونے کی وجہ سے کیجریوال سرکار پر کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ اس کے بغیر بھی وہ46 ممبران کے ساتھ اکثریت میں ہوگی۔ مگر خالی ہوئی سیٹوں پر 6 مہینے کے اندر دوبارہ چناؤ کرانا ہوگا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ایک طرح سے کیجریوال سرکار کی کارگزاری پر ریفرنڈم بھی ہوگا۔ پارلیمنٹری سکریٹری بنائے گئے سبھی ممبران اسمبلی پارٹی کے تیز طرار اور کیجریوال کے پسندیدہ ہیں اگر ان میں سے کچھ سیٹیں بھی کم ہوتی ہیں تو اسے کیجریوال کی دہلی میں مقبولیت میں کمی کے طور پر دیکھا جائے گا۔ ادھردہلی کے وزیر اعلی کے میڈیا مشیر ناگیندر شرما کے مطابق ریاستی سرکار کا صاف کہنا ہے کہ یہ عہدہ فائدے کا نہیں ہے۔ ان کی تقرری کا نوٹیفکیشن میں صاف کردیاگیا تھا کہ انہیں الگ سے کوئی سہولت نہیں دی جائے گی۔ یہ بل اس لئے پاس کیا گیا تھا کہ اگر مستقبل میں انہیں ان کی ذمہ داری پوری کرنے کے لئے کوئی سہولت دینی ہوگی تو وہ ممکن ہوسکے۔ ایک سال پرانے اس بل کو جان بوجھ کر لٹکائے رکھا گیا۔ اسے ریاستی حکومت نے پچھلے سال جون میں ہی پاس کردیا تھا۔ اب اس بل کو لوٹائے جانے کے باوجود ممبران اسمبلی کی ممبر شپ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ چناؤ کمیشن کی طرف سے جاری نوٹس کے جواب میں بھی کہا جاچکا ہے کہ اس عہدے پر الگ سے کوئی فائدے نہیں دیا جارہا ہے۔ خود وزیر اعلی کیجریوال نے سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مودی جی جمہوریت کا احترام نہیں کرتے وہ ڈرتے ہیں صرف عام آدمی پارٹی سے۔ انہوں نے کہا کسی ایم ایل اے کو ایک پیسہ نہیں دیا گیا گاڑی بنگلہ کچھ نہیں دیا گیا، سب ایم ایل اے فری میں کام کررہے ہیں۔ مودی جی کہتے ہیں سب گھربیٹھو کوئی کام نہیں کرے گا۔ کسی کو بجلی پر تو کسی کو ہسپتال پر، کسی کو اسکول پر لگا رکھا تھا۔ مگرمودی جی کہتے ہیں نہ کام کروں گا نہ کرنے دوں گا۔ ادھر چناؤ کمیشن بھی اس ماہ کے آخر میں اس معاملے میں اپنی رپورٹ صدر کو بھیجنے والا ہے۔ صدر کے ذریعے اس ترمیمی بل کو اپنی منظوری دینے سے انکار کرنے کی تصدیق راج نواس نے بھی کردی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ صدر کہ یہاں سے آئی فائل دہلی سرکار کے آئینی سکریٹری کے پاس بھیج دی ہے۔پردیش کانگریس کے پردھان اجے ماکن کا اس مسئلے پر کہنا ہے کہ ہمیں سرکاری سہولیات ملی تھیں لیکن ہم وزیر اعلی کے پارلیمنٹری سکریٹری تھے۔ صدر نے سرکار کے فائدے کے عہدے کے بل کو اس لئے خارج کردیا کہ عاپ سرکار نے 21 ممبران اسمبلی کو وزیر اعلی کا پارلیمنٹری سکریٹری بنانے کے بجائے وزرا کا پارلیمنٹری سکریٹری بنایا جو قانونی طور پر غلط ہے۔ حکومت نے ایک وزیر کو تین تین سکریٹری دے دئے۔ وزیر اعلی کو اخلاقی ذمہ داری لیتے ہوئے سبھی ممبران سے استعفیٰ لینا چاہئے۔فائدے کے عہدے کو لیکر 21 عاپ ممبران اسمبلی کی ممبر شپ خطرے میں پڑ رہی ہے کہ مسئلے کو لیکر کیجریوال مسلسل الزام لگا رہے ہیں کہ انہیں برخاست کروانے میں وزیر اعظم نریندر مودی کا اہم کردار ہے لیکن واقف کار کہتے ہیں کہ آئین میں ممبر اسمبلی یا ایم پی کی ممبر شپ ختم کرنے کا حق صرف صدر کو ہے۔ اس بارے میں وہ سرکار یا کسی وزارت سے غور کرنے کے بجائے وہ سینٹرل چناؤ کمیشن سے صلاح لے سکتے ہیں۔ پارلیمنٹ اور اسمبلی کے سابق سکریٹری و آئینی ماہر ایس کے شرما کے مطابق ہندوستانی آئین میں صاف لکھا ہے کہ عوامی نمائندے کوئی بھی فائدے کا عہدہ نہیں لے سکتا۔ وزیر کو بھی تو فائدے کے عہدے پر بیٹھا مانا جاسکتا ہے؟ لیکن اس سے بچنے کے لئے پہلے پرلیمنٹ میں ریزولوشن پاس کرلیا جاتا ہے کہ دیش یا پردیش چلانے کے لئے وزیر وغیرہ کی ضرورت ہے۔ دہلی کے معاملے میں ریاستی حکومت نے ایسا نہیں کیا اور انہوں نے 21 پارلیمانی سکریٹری بنانے کے بعد صدر کو بل بھیجا جو تکنیکی طور پر غلط ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اتنا حساس ترین ہے کہ آئین کے مطابق کسی ممبر اسمبلی کو برخاست کرنے کے لئے نہ مرکزی سرکار سے صلاح لیں گے نہ ریاستی حکومت سے پوچھیں گے اور نہ وزیر اعظم سے پوچھیں گے۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلی کو اعتماد میں لیں گے۔ فائدے کے عہدے کو لیکر21 ممبران اسمبلی کی ممبر شپ خطرے میں پڑنے کے معاملے میں کانگریس اور بی جے پی لیڈر اس کا سہرہ لے رہے ہیں لیکن ساری محنت کے پیچھے کھڑے نوجوان وکیل 29 سالہ پرشانت پٹیل ہیں۔ انہوں نے ہی صدر سے لیکر چناؤ کمیشن تک دروازہ کھٹکھٹایاتھا۔ ایسا نہیں کہ یہ معاملہ اتنا جلدی حل ہوجائے گا۔ابھی تو بہت لمبا راستہ آگے ہے۔چناؤ کمیشن پوری کارروائی کرے گا جس میں مہینوں لگ سکتے ہیں یہ جھٹکا ضرور ہے کیجریوال سرکار کے لئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟