گھناؤنے جرائم میں موت کی سزاغیر انسانی نہیں

پچھلی ڈیڑھ دہائی میں جن چار لوگوں کو پھانسی پر لٹکایا گیا ہے ان میں سے 3 دہشت گرد تھے۔ ان معاملوں میں سپریم کورٹ کے فیصلوں سے صاف ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے پھانسی کی سزا ضروری ہے۔ ممبئی بم دھماکوں کے مجرم یعقوب میمن کی پھانسی کی سزا پر سپریم کورٹ نے صاف کیا کہ موت کی سزا غیر انسانی یا بربریت آمیز نہیں ہے۔ گھناؤنے جرائم میں سزائے موت زندگی اور آزادی کے حق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ جسٹس ٹی ایس ٹھاکر، جسٹس آر کے اگروال اور جسٹس اے کے گوئل پر مشتمل تین نفری بنچ نے قتل کے معاملے میں موت کی سزا کے ایک قصوروار کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے یہ ریمارکس دئے تھے۔ ایک لڑکے کے اغوا اور قتل کے قصوروار اپنی عرضی میں دلیل دی تھی کہ موت کی سزا صرف دہشت گردوں پر ہی لاگو ہوتی ہے۔ اس پربنچ نے کہا قتل کے معاملے میں موت کی سزا اہم ہے لیکن اگر عدالت نے موت کی سزا ہو تو اس پر سوال کھڑا کرنا مشکل ہے لیکن زرفدیہ کے لئے اغوا کرنے کے بڑھتے واقعات کو روکنے کیلئے سخت سزا دینا ضروری ہے۔ پھر چاہے اغوا پیسے کے لالچ میں عام جرائم پیشہ افراد نے یا منظم سرگرمیوں کے طور پرکیا ہو یا دہشت گردتنظیموں نے۔عزت مآب بنچ نے آئی پی سی کی دفعہ364A کے تحت سزائے موت کو جائز ٹھہراتے ہوئے یہ رائے زنی کی تھی۔ بنچ نے کہا کہ پارلیمنٹ نے یہ قانون دیش کے شہریوں کی سلامتی کیلئے بنایاتھا۔
اسے تیارکرتے وقت دیش کے اتحاد ،سالمیت اور سرداری کی سلامتی پر تشویش ظاہرکی تھی۔ ایسے میں دفعہ364A کے تحت سزائے موت کو جرائم کے موازنے میں زیادہ بے رحم نہیں مانا جاسکتا۔ اسے غیر آئینی نہیں کہا جاسکتا۔ قابل ذکر ہے وکرم سنگھ کو2005ء میں ایک طالبعلم کے اغوا اور قتل کے معاملے میں پنجاب و ہریانہ ہائیکورٹ نے موت کی سزا سنائی تھی بعد میں سپریم کورٹ نے اس پر اپنی مہر لگادی تھی۔ زرفدیہ کے لئے اغوا میں دفعہ364 کا قصوروار ٹھہرائے جانے پر اس نے سزاکے خلاف اپیل دائر کی تھی۔ اس نے یعقوب میمن کی پھانسی کے بعد ان انسانی حقوق انجمنوں نے ہائے توبہ مچادی تھی۔ اس پر آئینی کمیشن نے پھانسی کو بنائے رکھنے کے حق میں رائے دیتے ہوئے کہا تھا کہ پھانسی کی سزا کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت سماج کی سلامتی اور انسانیت کی حفاظت کی ضرورت کو دھیان میں رکھنا ہوگا۔ پھانسی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے کہا تھا کہ یہ سوال آئی پی سی سیکشن کو بنائے رکھنے کا نہیں ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ خوف پیدا کرنے والی سزا کو ختم کرنے کے کیا کیا اثرات ہوں گے؟ موجودہ مشکل اور شش و پنج کے ماحول میں یہ انسداد (ڈیٹورینٹ) سزا اگر نہیں بنائے رکھی تو دیش میں بدامنی پھیل جائے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟