جنسی جرائم پر تبصرہ کرکے پھر نیتا جی تنازعوں میں گھرے

سماجوادی پارٹی کے چیف ملائم سنگھ یادو وقتاً فوقتاً بے موقعہ محل ایسے متنازعہ اور بے تکے بیان دیتے رہتے ہیں جس سے خود ان کے بیٹے اکھلیش کی سرکار اور پارٹی مشکل حالت سے دوچار ہوجاتی ہے۔ ایک بار جب پورے دیش میں خواتین کے تئیں تشدد اور آبروریزی کو لیکر ہائے توبہ مچی ہوئی تھی تب نیتا جی نے اسے لڑکوں سے ہو جانے والی چھوٹی بھول بتا کر تقریباً معافی نامہ سا جاری کر ہنگامہ کھڑا کردیا تھا۔ ان کے ایسے غیر ذمہ دارانہ بیان پر ملک گیر سطح پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا اور پورے مہذب سماج اور خاص طور سے خواتین انجمنوں نے انہیں زور دار طریقے پرنشانے پر لیا تھا۔اب ملائم نے کہہ دیا کئی بار آبروریزی ایک آدمی کرتا ہے اور اس میں چار لوگوں کو نامزد کردیا جاتا ہے۔ ایسا بدلے کے جذبے سے کیا جاتا ہے۔ انہوں نے آگے یہ بھی کہا کہ ایسی مثال بھی ہے کہ جس میں بے قصوروں کو پھنسا دیا جاتا ہے۔ اب اجتماعی آبروریزی کو غیر مہذب اور غیرمعمولی بتا کر پھر سے تنازعوں میں پھنس گئے ہیں۔ اجتماعی آبروریزی کے بڑھتے واقعات کو سپریم کورٹ نے نہ صرف وقتاً فوقتاً باعث تشویش بتایا ہے بلکہ اسی سال اجتماعی گینگ ریپ کے کچھ ویڈیو پر خود نوٹس لیتے ہوئے عدالت نے معاملے کی سی بی آئی جانچ کرنے کا حکم تک دے دیا۔لیکن ملائم سنگھ کی اگر مانیں تو قومی راجدھانی دہلی کو ہلا دینے والے نربھیا گینگ ریپ سمیت اجتماعی آبروریزی کے تمام معاملے ہی جھوٹے کہلائیں گے۔ جب جنسی جرائم کے خلاف سخت سزا پر غور ہورہا تھا تب بھی یہ کہہ کر کہ لڑکوں سے غلطیاں ہو جاتی ہیں اس کے لئے کیا انہیں پھانسی دے دی جائے گی۔ سینئر سوشلسٹ لیڈر نے اجتماعی آبروریزی کو ایک معمولی واقعہ بتانے کی کوشش کی تھی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے دیش میں خاص کر شمالی ہندوستان کے مرد بالادستی سماج میں عورتوں کے تئیں غلط اور قابل اعتراض رائے بنی ہوئی ہے۔یہاں تک کہ عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم کیلئے بھی چھوٹے اور عریانی کپڑوں اور لڑکی کے دیر رات باہر رہنے اور کوئی جینس اور موبائل کو تو کوئی لبھانے کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے لیکن اترپردیش جیسے صوبے کا وزیر اعلی رہ چکے حکمراں پارٹی کا چیف اگر ایسی رائے زنی کرتاہے تو یہ سنگین اور باعث تشویش ہے۔ ملائم کے اس بیان کے بعد اجتماعی اور سلسلہ وار آبروریزی کے واقعات کے جو معاملے سامنے آرہے ہیں اس سے پردیش سہما اورشرمسار ہے۔ چراغ تلے اندھیرے کی صورت تو صوبے کی راجدھانی لکھنؤ کی ہے جہاں اسکول سے لوٹتی نابالغ طالبہ کو دن دھاڑے کار میں اغوا کر اس کے ساتھ اجتماعی آبروریزی کی گئی۔ بتایا جاتا ہے اس طالبہ کی حالت نازک ہے۔ لکھنؤ پولیس صرف اس بات کو ثابت کرنے میں لگی ہوئی ہے کہ یہ آبروریزی کی واردات ہے لیکن اجتماعی آبروریزی کی نہیں۔ مطلب صاف ہے اسے ملزمان کو پکڑنے کے بجائے نیتا جی کی آبروریزی سے متعلق غیر ذمہ دارانہ خیالات کو صحیح ثابت کرنے کی فکر ہے اور نیتا جی کے ذریعہ حوصلہ افزائی سے حوصلہ پائے لڑکے (جرائم پیشہ) آبروریزی جیسی غلطی درغلطی کرتے جارہے ہیں۔ نیتا جی لگے ہوئے ہیں یہ ثابت کرنے میں کہ پردیش کے شہریوں کو مطمئن ہونا چاہئے کہ اترپردیش میں آبروریزی کے واقعات کے اعدادو شمار دیگر ریاستوں سے کم ہیں۔ حالانکہ قومی کرائم بیورو کچھ اور ہی کہانی بیان کرتا ہے۔ اس کے مطابق 2014ء میں پورے دیش میں آبروریزی کے قریب2300 معاملے درک ہوئے تھے۔جس میں525 کے قریب صرف یوپی میں ہی تھے لہٰذا ذمہ دار لوگوں کوایسی اوچھی رائے زنی سے پرہیز کرنا چاہئے جن سے بالآخر جرائم پیشہ کے حوصلے بلند ہوتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟