جام سے ہر سال 600ارب روپےکا نقصان ہوتا ہے

راجدھانی دہلی کی بھاگ دوڑ بھری زندگی سڑکوں پر ٹھہرتی نظر آتی ہیں۔ دہلی کی زیادہ تر شاہراہوں پر گاری چلاتے وقت تو آپ کے صبر کا امتحان ہوتا ہے جام نہ صرف لٹین زون( راشٹرپتی بھون) بلکہ دہلی کے تقریبا سبھی علاقوں میں گھنٹوں سڑک پر کبھی کبھی رک کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ حالت درسال در بڑھتی جارہی ہیں۔ جس سے مستقبل قریب میں کوئی راحت نظر نہیں آتی۔ سال 1982میں ایشیائی کھیلوں کے انعقاد کے وقت دہلی میں فلائی اوور کی تعمیر ہوئی تھیں۔ اس کے بعد جام سے نجات سے ملنے کے لئے ان فلائی اوور بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ایک کے بعد ایک فلائی اوور بنتے گئے۔ سال 2010میں کامن ویلتھ کھیلوں کے آس پاس یہاں فلائی اوور کی تعداد 75 تک پہنچ گئی تھی۔ امید تھی کہ اس سے جام سے پریشان حال دہلی والوں کو کچھ راحت ملے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ 96 لاکھ سے زائد گاڑیوں کا بوجھ سہہ رہی دہلی ٹریفک جام کے دلدل میں پھنستی جارہی ہیں۔ گاڑیوں کا یہ بوجھ سال در سال بڑھتا ہی جارہا ہے۔ سڑکوں کا ڈیزائن وہی برسوں پرانا ہے سڑکیں توقع سے کم چوڑی ہے ہر علاقے میں لگنے والے سڑک جام کے پیچھے وجہ بھی الگ الگ سامنے آئی ہیں۔ دھرنامظاہروں سے بھی جام لگنے لگے ہیں۔ گزشتہ برس میں 2409 مظاہرے، 361 ریلیاں اور 4170 دھرنے وہڑتال، 342 تہواروں کے متعلق پروگرام ہوئے۔ اس وجہ سے بھی جام لگتا ہے۔ایک ٹی سی بس بریک ڈاؤن ہوتی ہے تو4 گھنٹے تک ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔ بسیں ہائیڈرولک ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے بریک ڈاؤن کے بعد بس ایک انچ بھی نہیں ہل پاتی اگر وہ ٹریفک لائٹ یا سڑک کے بالکل بیچ میں خراب ہوجائے تو وہ کہاں تک وہ وہاں گھنٹوں کھڑی رہتی ہے اور ٹریفک کی ایسی حالات ہوجاتی ہے کہ آنے جانے والوں کو جام سے پریشان ہوناپڑتا ہے۔ اگر اندر دیو جب زیادہ خوش ہوجائے تو بارش سے پانی بھرجانے کی پریشانی کھڑی ہوجاتی ہیں۔ بارش کے موسم میں کل 152 مقامات پر پانی بھرجاتا ہے۔ ٹریفک پولیس نے اس بارے میں بلدیاتی ایجنسیوں کو بھی آگاہ کیا ہے کہ پانی بھرنے اور تیز بارش کے سبب ٹریفک سنگل بھی کام نہ کرنے سے گاڑیوں کی لمبی لائن سڑکوں پر لگ جاتی ہیں۔ دہلی میں گاڑیوں کے ڈرائیوروں کو صبر نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ پہلے نکلنے کے چکر میں یہ بیچیدہ صورت حال کردیتے ہیں اور انہی اسباب سے سڑک پر مار پیٹ کے معاملے بھی بڑھ رہے ہیں۔ ان ٹریفک جام سے مالیاتی نقصان بھی بہت زبردست ہورہا ہے۔ انڈین ٹریفک کارپوریشن اور آئی آئی ایم کی ایک رپورٹ کے مطابق میٹروپولٹین شہرو ں میں یومیہ کسی گاڑی کو 20% سے زیادہ ایندھن جام میں پھنسنے پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ ہرسال ٹریفک جام کی وجہ سے دیش کو قریب 600 ارب رو پے کے ایندھن کا برباد ہونا سہنا پڑتا ہے۔ دہلی میں 96.34 لاکھ گاڑیاں ہیں۔ جب کہ چنئی میں 44.90 لاکھ گاڑیاں، ممبئی میں 25.02لاکھ، اور کولکتہ میں 4.45 لاکھ گاڑیاں ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟