ڈینگو کی روک تھام کیلئے بیداری ضروری

برسات کے موسم میں مچھروں کے کاٹنے سے پیدا ہونے والے ڈینگو، جاپانی بخار، چکن گنیا اور ملیریا وغیرہ امراض ہونا سالانہ کا معمول بن گیا ہے۔ اکیلے دہلی میں ہیں اس سال اب تک ڈینگو متاثرین کی تعداد277 ہوچکی ہے۔ کئی موتیں بھی ہوچکی ہیں۔ ہر بار برسات شروع ہونے کے پہلے ان بیماریوں سے محتاط رہنے کے لئے کہا جاتا ہے مگر حالات میں کوئی سدھار نہیں ہورہا ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ان بیماریوں کا مقابلہ کرنے کیلئے جہاں عملی قدم اٹھائے جانے چاہئیں سیاسی دل ایک دوسرے پر الزام لگا کر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے دیکھے جاتے ہیں۔ ابھی کانگریس کے نیتا عام آدمی پارٹی سرکار پر الزام لگا رہے ہیں کہ مچھروں سے ہونے والی بیماریوں کی روک تھام کیلئے مناسب اقدام نہیں کررہی ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے کانگریس سرکار کے وقت اس مسئلے نے کم خطرناک رخ نہیں اختیار کیا تھا۔ دہلی سرکار کے مولانا آزاد میڈیکل کالج کے قریب ایک درجن ٹرینی ڈاکٹروں اور نیم فوجی دستوں کے کئی جوانوں کا ڈینگو کی چپیٹ میں آنا اور بھی فکر کا موضوع ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نہ تو مولانا آزاد میڈیکل کالج اور نہ ہی نیم فوجی دستوں کے کیمپوں میں صاف صفائی کا مناسب انتظام ہے۔ سب سے حیرانی کی بات یہ ہے کہ جس ادارے کے پاس لوگوں کا علاج کرنے کی ذمہ داری ہے اسی کے احاطے میں ڈینگو کے مچھر پنپ رہے ہیں اور اسے اس کی بھنک تک نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کو یہ جانکاری نہیں ہے کہ ڈینگو مچھر سے بچاؤ ہوسکتا ہے۔ سفید کالے رنگ کے دھبو ں کا یہ مچھرنیچے اڑتا ہے اور عموماً ٹانگو پر ہی کاٹتا ہے اس لئے بچوں کو جب پارکوں وغیرہ میں بھیجیں تو ان کے پاؤں میں اوڈوماس اسپرے یا آج کل پیچ چل رہے ہیں وہ لگادیں۔ ان کی خوشبو سے ڈینگو، چکن گنیا مچھر نزدیک نہیں آسکیں گے۔ حالانکہ ڈینگو کا انفیکشن ہو بھی رہا ہے لیکن لوگوں میں گھبراہٹ زیادہ ہے جبکہ اس کے سنگین ہونے کی امید صرف ایک فیصد ہوتی ہے اور اگر لوگوں کو خطرے کی جانکاری ہو تو جان جانے سے بچائی جاسکتی ہے۔ اگر ڈینگو کے مریض کے پلیٹ لیٹ کاؤنٹ 10 ہزار سے زیادہ ہوں تو پلیٹ لیٹ چڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ غیر ضروری پلیٹ لیٹ نقصان کر سکتے ہیں۔ ڈینگو بخار چار قسم کے ڈینگو وائرس کے انفیکشن سے ہوتے ہیں جو مادہ ایڈیز مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔ ڈینگو بخار میں تیز بخار کے ساتھ ناک بہنا، کھانسی، آنکھوں کے پیچھے درد، جوڑوں میں درد اور کھال پر ہلکے رنگ دار دانے یا چکتے ہوتے ہیں۔ حالانکہ کچھ بچوں میں لال اور سفید نشانوں کے ساتھ پیٹ خراب ، جی مچلانا، الٹی بھی ہوسکتی ہے۔ آپ بھی سرکار کی مدد کریں آپ کے گھر میں کوئی گندگی نہ رہے، پانی اکھٹا نہ ہونے دیں، کولروں میں پانی بدلتے رہیں،محلے میں مچھر مار دواؤں کا مستقل چھڑکاؤ کریں۔ آنے والے دنوں میں جب تاپ مان میں تھوڑی کمی آئے گی اس وقت ڈینگو کے لئے ذمہ دار مچھروں کی پیدائش بڑھے گی اس لئے ضروری ہے کہ سبھی لوگ آج سے ہی ہوشیار ہوجائیں اور بچاؤ کی تیاری کریں۔ ساتھ ہی لوگوں کے درمیان بیداری پھیلائیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟