بچے سے بھاری بستہ

بہت ساری کتابوں ، کاپیوں کا بوجھ لے کر روز اسکول جانے والے بچوں کی مجبوری کو لیکر کافی عرصے سے تشویش جتائی جارہی ہے۔ میں نے اسی کالم میں ایک آرٹیکل لکھا تھا ’’بچے سے بھاری بستہ‘‘ ایسی کئی اسٹڈی آچکی ہیں جو بتاتے ہیں کہ بستے کے بوجھ کے چلتے بچوں میں پڑھنے کے تئیں بے توجیہی اور پابندی میں کمی یا چڑ چڑا پن جیسی ذہنی پریشانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ بستے کا بوجھ گھٹانے کے لئے حالانکہ کئی بار کوششیں بھی ہوئی ہیں لیکن کوئی پالیسی ساز کوشش ابھی تک نظر نہیں آئی ہے۔ بستے کے بوجھ کے بارے میں شاید پہلی بار کسی سرکاری کمیٹی نے غور کیا ہے۔ 
مہاراشٹر حکومت نے یہ پہل کی ہے۔ دیش کے قریب58 فیصدی اسکولی بچے بستے کے بھاری بھرکم بوجھ کے سبب بیماری کا شکار ہورہے ہیں،مہاراشٹر سرکار کی رپورٹ نے یہ انکشاف کیا ہے۔کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں روزانہ کتابوں کا وزن ڈھونے کی وجہ سے بچوں کی صحت پر پڑنے والا اثر سبھی کیلئے تشویش کا باعث ہونا چاہئے۔ اس کے مطابق کم عمر کے بچوں میں سے 58 فیصد اپنے بچے کے بوجھ کے سبب ہڈیوں میں کمزوری آنے سمیت کئی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔ ان کے پھیپھڑوں پر بھی برا اثر پڑ رہا ہے۔ اس سلسلے میں معاملے کی سماعت کرتے ہوئے ممبئی ہائی کورٹ کے جسٹس نے طنز کرتے ہوئے کہا ہے کہ جلد ہی بچوں کو ٹرالی بیگ لیکر اسکول جانا پڑے گا کیونکہ فی الحال وہ اپنی پیٹھ پرجتنا بھاری بستہ لاد کر اسکول جارہے ہیں وہ ناکافی ثابت ہورہا ہے۔ معاملے کی سماعت کررہی بنچ کے جسٹس بی پی کولا بوالا نے بھی کہا کہ اسکولوں میں بچوں کو روز سبھی مضمون پڑھائے جاتے ہیں اس لئے انہیں روز سبھی کاپی کتابیں پڑھانی پڑتی ہیں۔ ایسے ٹائم ٹیبل میں تبدیلی ہونی چاہئے۔ سرکار نے سماعت کے دوران کہا کہ بچوں کو بستے کے بوجھ سے نجات دلانے کے لئے سرکار اسکولوں میں ہی لاکر بنانے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ اس پر بینچ کے دوسرے جسٹس وی ایم کناڈے نے کہا ایسے تو بچوں کے والدین کو دو دو سیٹ کاپیاں کتابیں خریدنی پڑیں گی۔ ایک سیٹ پاس رکھنے کے لئے اور دوسرا اسکول کے لئے کیونکہ بچوں کو بہت زیادہ ہوم ورک دیا جاتا ہے۔ 
کورٹ میں تجاویز پیش کی گئیں کہ سرکار کواسکولی بیگ کا بوجھ کم کرنے کے لئے ای کلاس روم اور آڈیو۔ ویجول تکنیک کا استعمال کریں۔ اس پر کورٹ نے کہا یہ تجویز اچھی ہے۔ اس پر جلدی سے جلدی عمل ہونا چاہئے۔ اگلی سماعت 23 جولائی کو ہے تب سرکار بتائے گی کہ وہ کیا کرے گی۔ ہم امید کرتے ہیں مہاراشٹر سرکار اس سلسلے میں ٹھوس قدم اٹھائے گی اور پھر دیگر ریاستی سرکاریں بھی اسی طرز پر مسئلے کا کوئی حل نکالیں گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟