ایک بار پھر پلٹا پاکستان

روس کے شہر اوفا میں تین دن پہلے نئے سرے سے بات چیت شروع کرنے پر رضامندی جتانے والا پاکستان اپنی عادت کے مطابق ایک بار پھر مکر گیا ہے۔یو ٹرن لینے کے لئے مشہور پاک وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ جب تک کشمیر کا ایجنڈا نہیں ہوگا تب تک بھارت سے کوئی بات چیت نہیں کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا پاکستان اپنے وقار اور عزت سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ پاکستانی قومی مشیر نے بتایا روس میں مودی اور شریف کے درمیان ہوئی بات چیت کسی مذاکرات کا باقاعدہ آغاز نہیں تھا۔ اس کا مقصد دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لئے بہتر نظریہ قائم کرنا تھا۔ نریندر مودی اور نواز شریف کی اوفا میں ہوئی بات چیت سے جاگی امیدوں کو پاکستان نے تین دن بھی برقرار نہیں رہنے دیا۔بھارت سرکار نے دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کی ملاقات کو ایک کارنامہ بتایا تھا کہ اس سے 26/11 کے قصورواروں کو سزا دلوانے کا اشو پھر ایجنڈے پر آگیا ہے۔ مودی شریف بات چیت کے بعد جاری مشترکہ بیان میں ذکر ہوا کہ نومبر 2008 ء میں ممبئی پر آتنکی حملوں کے سازشیوں کی آواز کے نمونے دینے پر پاکستان رضامندی ہوگیا ہے۔ ادھر پاکستان سرکار کے وکیل نے یہ کہتے ہوئے اس کی تردید کردی کہ ایسے نمونے دینے پر عدالتی روک لگی ہے۔پاکستان نے ممبئی بم کانڈ کے سازشی اور بھارت میں مطلوب دہشت گرد ذکی الرحمان لکھوی کے اشو پر جس طرح سے رخ بدلہ ہے وہ آتنک واد کے اشو پر اس کا دوہرا چہرہ کو ایک بار پھر بے نقاب ہوا ہے۔ اوفا میں دونوں وزرائے اعظم کے مشترکہ بیان میں دونوں لیڈروں نے نہ صرف دہشت گردی کی سبھی شکلوں کی نکتہ چینی کی تھی بلکہ امن اور استحکام قائم کرنے کے لئے اس سے نمٹنے کی سانجھہ ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔ اتنا ہی نہیں یہ بھی یقین دہانی کرائی تھی کہ ممبئی کانڈ کی سماعت تیز کرنے اور ملزمان کی آواز کے نمونے دینے پر بھی رضامندی جتائی تھی لیکن محض تین دن کے بعدہی پاکستان کی طرف سے جو بیان بازی ہورہی ہے اس سے اس کے قول اور فعل کے فرق کو صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔بچی کچی کسر قومی مشیر سرتاج عزیز کے بیان سے پوری ہوگئی ہے۔ یہ بلا وجہ نہیں ہے کہ ٹھیک اسی وقت پاکستانی ہائی کمشنر کے ذریعے عید کے بہانے کشمیری علیحدگی پسندوں کے مدعو کئے جانے کی خبر آئی ہے۔ اس سے پہلے بھی پچھلے سال دونوں ملکوں کے خارجہ سکریٹریوں کی مجوزہ بات چیت سے عین پہلے بھی پاک ہائی کمشنر نے حریت نیتاؤں کو مدعو کرکے بھڑکانے والا کام کیا تھا۔ یہ تمام بیان اچھے ارادے کے اشارے نہیں مانے جاسکتے۔ اب یہ بھارت کو طے کرنا ہے کہ وہ کتنا تحمل دکھاتا ہے ۔ کشمیر کو زبردستی اشو بنانے کی مجبوری پاک سرکار کی ہوسکتی ہے۔ یہ بھی ثابت ہوتا ہے پاک حکومت پاک فوج کے ہاتھوں میں محض ایک کٹھ پتلی ہے جسے جب فوج چاہے گھما سکتی ہے لیکن اس سے سچائی تو نہیں بدل جائے گی۔حقیقت تو یہ ہے کہ جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان ان جہادی آتنک وادی گروپوں کو ہر طرح کی مدد کرنے سے باز نہیں آئے گا۔ ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ جب تک پاک سرزمیں پرماحول نہیں بدلتا تب تک امن کی بات کرنے کا فائدہ کیا ہے؟ کیوں ہم بار بار امن مذاکرات کرتے ہیں؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟