سبھی زیر سماعت قیدی تہاڑ سے ضمانت پر رہا ہوں

دہلی سرکار نے جمعرات کو دہلی ہائی کورٹ میں تہاڑ جیل میں بند ہزاروں قیدیوں کو انسانی حقوق کی پرزور وکالت کی ہے۔ دہلی حکومت نے ہائی کورٹ سے گھناؤنے جرائم کو چھوڑ کر دیگر جرائم میں 6 ماہ سے زیادہ وقت سے جیل میں بند زیر سماعت قیدیوں کو ضمانت پر رہا کرنے کی درخواست کی ہے۔ چیف جسٹس جی ۔روہنی اور جسٹس جینت ناتھ کی بنچ کے سامنے سرکار کی طرف سے سرکاری وکیل راہل مہرہ نے کہا کہ فوری انصاف قیدیوں کا بنیادی حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم زیر سماعت قیدیوں کے خلاف درج مقدمات کا جلد نپٹارہ نہیں کرسکتے تو لمبے عرصے تک جیل میں بند رکھنا ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ مہرہ نے تہاڑ جیل میں بند خاتون قیدیوں کی صورتحال کے بارے میں جانکاری دیتے ہوئے بنچ سے درخواست کی کہ جوڈیشیل سسٹم میں کمیوں کی وجہ سے زیر سماعت قیدیوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔تہاڑ جیل میں خاتون قیدیوں کی قابل رحم حالت کو لیکر سپریم کورٹ کے جج جسٹس کورین جوزف نے بھی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھا تھا۔ ہائی کورٹ نے بدھوار کو اسی خط پر نوٹس لیتے ہوئے سرکار سے جواب مانگا تھا۔ جسٹس جوزف نے جیل میں 612 خاتون قیدیوں کی قابل رحم حالت کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے اس معاملے میں مناسب کارروائی کرنے کوکہا تھا۔ ہم دہلی سرکار اور جسٹس جوزف کی بات سے متفق ہیں۔ ویسے بھی تہاڑ جیل کا برا حال ہے۔ جج صاحب جیل کی کوٹھہری میں سونے تک کی جگہ نہیں ہے۔ جیل میں تعداد سے کہیں زیادہ خاتون قیدی ہیں۔ گرمی کے چلتے ان کے ساتھ رہنے والے چھوٹے چھوٹے بچے ساری رات روتے بلکتے رہتے ہیں، صاحب ہزاری مدد کیجئے نا، ہمیں انصاف دلائیں۔ تہاڑ جیل میں سزا یافتہ اور زیر سماعت612 خاتون قیدیوں نے سپریم کورٹ کے جج کورین جوزف کو خط لکھ کر یہ درخواست کی ہے۔ خط میں بتایا گیا ہے کہ کئی خاتون قیدیوں کی ضمانت ہوچکی ہے لیکن طے شرائط کو پورا نہ کرنے کے سبب وہ رہا نہیں ہو رپا رہی ہیں۔ چھوٹے بچے بغیر جرم کے ماں کے ساتھ جیل میں رہنے کو مجبور ہیں۔ 
سپریم کورٹ کے جج کولکھے خط میں تہاڑ جیل نمبر6 میں بند خاتون قیدیوں نے کہا ہے کہ جیل میں صرف 400 قیدیوں کو رکھنے کی سہولت ہے لیکن یہاں600 سے زیادہ خاتون قیدی اور ان کے قریب40 بچے رہ رہے ہیں۔ جیل میں 234 سزا یافتہ اور 412 زیر سماعت خاتون قیدی ہیں۔ان میں 27 غیر ملکی خاتون قیدی ہیں۔ قاعدے کے مطابق 6برس سے زیادہ عمر کے بچے کو ماں کے ساتھ جیل میں نہیں رکھا جاسکتا لیکن کئی بچوں کی عمر کافی زیادہ ہوگئی ہے۔ بچوں کو جیل میں خطرناک خاتون قیدیوں کے ساتھ رکھا جارہا ہے۔ہمیں امید ہے کہ ہائی کورٹ جلد سے جلد ان کی سماعت کرکے انصاف دلائے گی اور جیل سے انہیں رہا کرے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟